Maktaba Wahhabi

326 - 331
سکتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے‘‘(فاطر:۱۴تا۱۵)۔اسی طرح فرمایا:’’جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے اُس وقت وُہ اپنے پکارنے والوں کے دُشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے۔‘‘(الاحقاف:۶)۔پس ہر میت اور غائب شخص نہ تو سن سکتا ہے اور نہ دُعا قبول کرنے کی اُسے قدرت و طاقت ہے۔اور نہ وہ کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ کسی کو تکلیف میں مبتلا کر سکتا ہے۔تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور خصوصاً خلفائے راشدین میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ہے کہ اُنہوں نے کسی وقت بھی اپنی حاجات اور مشکلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر اُن کی خدمت میں پیش کی ہوں،خصوصاً قحط سالی کے وقت۔ جیسا کہ دَورِ خلافت فاروق ہی میں قحط سالی ہوئی۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر میدان میں مدینہ سے باہر نکلے تاکہ نمازِ استسقٰی پڑھی جائے۔اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ نماز استسقٰی پڑھائیں اور دُعا کریں کیونکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ زندہ موجود تھے۔ثابت ہوا کہ اگر کسی شخص کے مرنے کے بعد اس سے بارش وغیرہ کے لئے دُعا کرانا جائز ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو نہ کہتے بلکہ سیدھے قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خود بھی آتے اور لوگوں کو بھی لاتے۔لیکن ایسا ہرگز نہیں کیا گیا۔نہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے کیا اور نہ کسی دُسرے صحابی نے کیا۔ اس واقعہ سے زندہ اور فوت شدہ کے درمیان جو امتیازی فرق ہے وہ واضح ہو جاتا ہے کیونکہ زندہ شخص سے سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ موجود ہو تو دعا کرے۔ فیہ مسائل ٭ جس شخص نے یہ کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفارشی بناتے ہیں اِس پر ناراض ہونا اور اس کی اس بات کو خلافِ شریعت قرار دینا۔٭رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا اس طرح متغیر ہو جانا کہ صحابہ کرام کے چہروں پر بھی اس کے آثار ظاہر ہونے لگے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ناپسند نہیں فرمایا کہ ’’ہم اللہ تعالیٰ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارشی بناتے ہیں۔‘‘ ٭سبحان اللہ کے معنی و مفہوم کی وضاحت۔٭ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر بارش کی دُعا کروایا کرتے تھے۔ بابُ:
Flag Counter