Maktaba Wahhabi

286 - 331
تیری بینائی لوٹائی،ایک بکری کا سوال کرتا ہوں۔اس نے جواب دیا میں اندھا تھا،اللہ نے مجھے بینائی کی نعمت عطا فرمائی۔تیرا جو جی چاہے لے لے اور جو جی چاہے چھوڑ دے۔اللہ کی قسم آج تو جو کچھ بھی اللہ کے نام پر لے گا،میں اس میں تجھ سے کوئی جھگڑا نہ کروں گا۔فرشتے نے کہا اپنا مال اپنے پاس رکھو۔تم آزمائے جا چکے۔اللہ تجھ پر خوش ہو گیا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا۔(بخاری و مسلم)۔ پیش نظر حدیث بہت اہم ہے۔اس میں بیشمار عبرتیں اور نصیحتیں مضمر ہیں غور فرمائیے کہ پہلے دو آدمیوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا اور نہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور نہ حقوق اللہ ادا کئے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کا شکار ہو گئے۔البتہ نابینا شخص نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا۔حقوق اللہ کی ادائیگی کا فریضہ انجام دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔کیونکہ اُس نے شکر کے ان تینوں ارکان پر عمل کیا جن کے علاوہ شکر کا وجود ہی ممکن نہیں۔شکر کے تین ارکان یہ ہیں:۱۔اقرارِ نعمت۔۲۔انعامات کو منعم حقیقی کی طرف منسوب کرنا۔۳۔انعام کرنے والے کی رضا کے مطابق انعامات کو خرچ کرنا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’حقیقت شکر یہ ہے کہ انسان انتہائی عجز و انکساری سے اللہ کریم کے انعامات کا دِل سے اعتراف کرے اور دل کی گہرائیوں سے منعم حقیقی سے محبت رکھے کیونکہ جو شخص اپنی کم عقلی اور جہالت کی وجہ سے انعامات کی حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ انعامات کا شکر ادا کیسے کر سکتا ہے؟ اور جو شخص انعامات کو تو پہچان لیتا ہے لیکن منعم کو نہیں پہچانتا وہ بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔اور جو شخص مندرجہ بالا تمام اُمور کو بطریق احسن انجام دیتا ہے وہی حقیقت میں شکر کا حق ادا کرتا ہے۔شکر کے لئے دل میں علم ہونا،علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان منعم کی طرف میلان رکھتا ہے۔اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کے سامنے عجز و انکساری سے پیش آتا ہے۔‘‘ بابُ: قول اللّٰه تعالیٰ وَ للّٰه الْاَسْمَاء الْحُسنٰی فَادْعُوہ بِھَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یلحدون فی اَسْمَائِہ(سورۃ اعراف:۱۸۰) اس باب میں اس حقیقت کو نکھار کر بیان کیا گیا ہے کہ اسمائے حسنی اللہ تعالیٰ ہی
Flag Counter