Maktaba Wahhabi

47 - 90
((لاَ تَصْحَبُ الْمَلٓائِکَۃُ رِفْقَۃً فِیْہَا جُلْجُلٌ))[1] ’’فرشتے اس کاروان کا ساتھ نہیں دیتے جس میں گھنٹی ہو۔‘‘ سابقہ تینوں احادیث میں گھنٹیوں کے وجود کو رحمت کے فرشتوں کی حاضری میں رکاوٹ کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ گیارہویں حدیث: صحیح مسلم،ابی داؤداور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْجَرَسُ مَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ))[2] ’’گھنٹی شیطان کی بانسریاں(ساز)ہیں۔‘‘ اس حدیث میں گھنٹی کو شیطان کا باجا یا بانسری و ساز بتایا گیا ہے۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ ساز و موسیقی رحمت و حفاظت کے فرشتوں کے وجود کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ بعض زیورات اور سکولوں کی گھنٹی: عورتوں کے بعض زیورات ایسے بھی ہیں جن سے موسیقی کی بعض آوازوں جیسی جھنکار نکلتی ہے جیسے پائل یا پازیب،بعض کنگن اور کئی چوڑیاں،ایسے زیورات پہن کر عورتوں کو ایسی جگہوں پر ہرگز نہیں جانا چاہیٔے جہاں پر غیر مرد ہوں اور ان کے زیورات کی جھنکار غیر مردوں کے کانوں تک جاکر انہیں اپنی طرف متوجہ کرکے مردوزن دونوں کیلئے فتنہ و بگاڑ کا باعث بنیں۔ صرف خواتین پر ہی بس نہیں ایسی چیزوں سے کمسن بچیوں کو بھی بچانا چاہیٔے۔حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو انہوں نے لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھالیا۔لڑکی نے حرکت کی تو اسکی پازیب کے گھنگھروؤں کی آواز آئی،انہوں نے
Flag Counter