Maktaba Wahhabi

62 - 90
امام ابو عَمرو ابن الصلاح رحمہم اللہ نے اپنے فتاویٰ میں سماع و قوّالی،ساز و موسیقی اور گانا سننے کے حرام ہونے پر تمام آئمۂ مذاہب اور علماء اسلام کا اجماع و اتفاق ذکر کیا ہے۔اور اجماع و اختلاف میں جن لوگوں کا کوئی شمار ا ور وزن نہیں ہوتا،ان میں سے اگر کسی نے کسی چیز کو انفرادی طور پر جائز قرار دیا ہے تو اس کی مفصّل اور پر زور تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ،انکے متقدّمین اصحاب اور انکے مذہب کی صحیح معرفت رکھنے والے گانے بجانے کے حرام ہونے کے بارے میں سب سخت اقوال رکھنے والے لوگ ہیں۔اور امام شافعی رحمہ اللہ سے پورے تواتر کے ساتھ انکا یہ قول ثابت ہے: (خَلَّفْتُ بِبَغْدَادَ شَیْئاً أَحْدَثَتْہُ الزَّنَادِقَۃُ،یُسَمُّوْنَہٗ التَّغْبِیْرَ یَصُدُّوْنَ بِہٖ النَّاسَ عَنِ الْقُرْآنِ)[1] ’’ میں نے بغداد میں ایک ایسی چیز چھوڑی ہے جسے زندیق وبے دین لوگوں نے ایجاد کیا تھا۔وہ اس کے ذریعے لوگوں کو قرآن سے روکتے ہیں اور وہ اسے تغبیر کہتے ہیں۔‘‘ جب تغبیر یعنی معمولی سے طربیہ انداز کے ساتھ زاہدانہ اشعار کے گانے کے بارے میں یہ کلمات کہے ہیں اور انہیں قرآن سے ہٹانے والے قرار دیا ہے تو ان گیتوں اور گانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو فساد و بگاڑ والی ہر چیز پر مشتمل ہوتے ہیں؟ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنی کنیز کا گانا سننے کیلئے لوگوں کو جمع کرنے والے شخص کو دیوث،احمق و بیوقوف اور مردود الشہادۃ قرار دیا ہے۔[2] 4۔امام احمد رحمہ اللہ اور آئمہ و فقہاء حنابلہ: گانے بجانے کے سلسلے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ اسے فِسق و فجور کو جنم دینے والا سمجھتے تھے،چنانچہ انکے فرزند ِار جمند امام عبد اللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدِ
Flag Counter