Maktaba Wahhabi

26 - 90
اس قاعدے کی رُو سے بھی گانے اور موسیقی کا جواز ختم ہوجاتا ہے اور وہ کم از کم مشکوک و مشتبہہ اشیاء میں داخل ہوجاتے ہیں جنکا سننا اور انکے لیٔے دل میں نرم گوشہ رکھنا عالم تو عالم کسی عامی مسلمان شخص کو بھی زیب نہیں دیتا۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب ’’الحلال و الحرام في الاسلام ‘‘میں ان مذکورہ دونوں قاعدوں کا خو د بڑے پُر ستائش انداز سے ذکربھی کیا ہے لیکن جب گانا اور موسیقی کی باری آئی تو قواعدِ شریعت کی بجائے خواہشاتِ نفس کی رَو میں بہہ گئے۔[1] گاناو موسیقی کی حُرمت:قرآنِ کریم سے اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کو حرام قرار دیا ہے انکے لیٔے مختلف کلمات اور انداز اختیار فرمائے ہیں جنکی مثالیں قرآنِ کریم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوبِ بیان میں بکثرت پائی جاتیں ہیں مثلاً کبھی اسے حرام،منع،ناپسندیدہ اور ملعون قرار دیا ہے،کہیں اسے رحمت سے دوری کا باعث یا رحمت کے فرشتوں کے حاضر نہ ہونے کا سبب،بُرے لوگوں اور کفّار و مشرکین کا وطیرہ و شیوہ،باعثِ مسخ،سببِ پتھراؤ،باعثِ عذاب،زمین میں دھنسائے جانے کا موجب،جھوٹ[الزور]،گناہ،لغو اور بے ہودہ کام کہا ہے اور کبھی شیطانی کام اور اسکے کرنے والے کو شیطان کا آلۂ کار بتایا ہے۔اور گانا و موسیقی کو حرام قرار دینے کیلئے یہ تمام انداز قرآن و سنت میں ملتے ہیں۔[2] یہی وجہ ہے کہ گانا و موسیقی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیکر آج تک تمام اہلِ عِلم حرام قرار دیتے آئے ہیں اور ان کی حرمت پر قرآنِ کریم،حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار و اقوالِ صحابہ و سلفِ اُمّت شاہد ہیں چنانچہ آیئے سب سے پہلے اس سلسلہ میں قرآنِ کریم کے بعض مقامات کا
Flag Counter