Maktaba Wahhabi

67 - 90
جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اس میں صرف دف بجانا اور ساتھ ہی شادی بیاہ کے وہ مخصوص اشعار پڑھنا جائز ہے جن میں کسی حرام چیز کی طرف دعوت نہ دی گئی ہو اور نہ ہی کوئی حرام و ناجائز مدح سرائی کی گئی ہو اور یہ بھی رات کے وقت اور خاص عورتوں کیلئے روا ہے تاکہ نکاح کا اعلانِ عام و تشہیر ہوجائے اور نکاح و زنا میں فرق ہوجائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ یہ بات ثابت ہے۔اور طبلہ[ڈھول و غیرہ]بجانا شادی بیاہ یا کسی بھی دوسرے موقع پر روا نہیں ہے۔صرف دف پر کفایت کی جائے اور وہ بھی صرف عورتیں بجائیں مرد نہیں۔‘‘[1] بریلوی مکتبِ فکر کے بانی و امام شاہ احمد رضا خان: بریلوی مکتبِ فکر کے بانی و امام شاہ احمد رضا خان اپنی کتاب ’’ احکامِ شریعت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان سے کسی نے سوال کیا جو کہ یوں تھا: ٭ آپ سے بعد نمازِ مغرب رخصت ہوا تو ایک دوست ایک عُرس پرلے گیا۔وہاں نعت اور شانِ اولیاء اللہ کے اشعار گانے کے ساتھ ساتھ سارنگیاں اور ڈھول بج رہے تھے۔یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں۔کیا اس فعل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء اللہ خوش ہوتے ہوں گے؟ شاہ احمد رضا خان صاحب جواب میں لکھتے ہیں: ’’ ایسی قوّالی حرام ہے،حاضرین سب گناہگار ہیں،اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کروانے والوں اور قوّالوں پر ہے۔حاضرین میں سے ہر ایک پر اپنا اپنا پورا گناہ،قوّالوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر جدا،اور ایسا عرس کروانے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوّالوں کے برابر جدا،اور سب حاضرین کے برابر علیحدہ۔وجہ یہ کہ حاضرین کو عرس کروانے والے نے بلایا۔اُن کیلئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوّالوں نے انہیں سنایا۔اگر وہ سامان نہ کرتا تو یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے،اس لیٔے ان سب کا گناہ
Flag Counter