Maktaba Wahhabi

32 - 90
آوازکواور حضرت حسن بصری نے حرام دَف[جو عید و شادی پر عورتوں کے علاوہ کسی اورکے ہاتھوں بجائی جائے]کو بھی شیطان کی آواز قرار دیا ہے۔ تیسری آیت: اس سلسلہ میں قرآنِ کریم کے ایک تیسرے مقام سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جو کہ سورۃ النجم کی آیات:۵۹،۶۰،۶۱ہیں،جہاں ارشادِ ربانی ہے: ﴿اَفَمِنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ o وَتَضْحَکُوْنَ وَ لَا تَبْکُوْنَ o وَ أَنْتُمْ سَامِدُوْنَ﴾ ’’اب کیا وہ یہی باتیں ہیں جن پر تم اظہارِ تعجب کرتے ہو،ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو،اور غفلت میں مبتلا ہو کر[گابجا]کر انہیں ٹالتے ہو؟۔‘‘ سمود یعنی گانا بجانا: یہاں﴿سَامِدُوْنَ﴾کا معنیٰ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تکبّر و غرور سے سَر منہ چڑھانا بیان کیا ہے۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہمااور امام مجاہد رحمہ اللہ سے یہی تفسیر منقول ہے جبکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہماسے ہی ایک دوسرے قول میں،اور عکرمہ و ابو عبید نحوی; کا کہنا ہے: (اَلسُّمُوْدُ اَلْغِنَائُ فِي لُغَۃِ الْحِمْیَرِ،یُقَالُ:اُسْمُدِيْ لَنَا أَيْ غَنِّيْ لَنَا) ’’ حِمیری[یمنی عربی]زبان میں سَمُود کا معنیٰ گانا بجانا ہے،کہا جاتا ہے: اُسْمُدِیْ لَنَایعنی ہمارے لیٔے گاؤ۔‘‘[1] اسی معنیٰ کے اعتبار سے اس آیت میں اشارہ ہے کہ کفّارِ مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ بٹانے کیلئے زور زور سے گانا شروع کردیتے تھے تو گویا یہ گانا و موسیقی کفّار و مشرکین کا وطیرہ و شیوہ ہے۔[2]
Flag Counter