Maktaba Wahhabi

68 - 90
ان دونوں[عُرس کروانے والے اور قوّالوں)پر ہوا۔پھر قوّالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عُرس کروانے والا ہوا،وہ نہ بلاتا تو یہ کیونکر آتے،لہٰذا قوّالوں کا گناہ بھی اس بلانے والے پر ہوا۔ اس کے بعد احمد رضا خان صاحب نے فقہاء کے اقوال اور احادیث سے بعض دلائل پیش کیٔے ہیں[جن میں سے اکثر ذکر کیٔے جاچکے ہیں]اور پھر وہ لکھتے ہیں: ’’ بعض جہاں بدمست یا نیم مُلا شہوت پرست یا جھوٹے صوفی بابدعت کہ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ مُحکمہ کے مقابل بعض ضعیف قصّے یا محتمل واقع یا متشابہ پیش کرتے ہیں۔انہیں اتنی عقل نہیں یا قصداً بے عقل بنتے ہیں کہ صحیح کے سامنے ضعیف،متعیّن کے آگے محتمل،مُحکم کے حضور متشابہ واجب الترک ہے‘‘[1] سماع وقوالی کی حرمت بعض صوفیاء کے اقول میں قرآن و سنّت کی نصوص اور آئمہ و علماء امّت کے اقوال ذکر کیٔے جا چکے ہیں لہٰذا اب مزید کسی چیز کی ضرورت تو نہیں رہ جاتی۔البتہ بعض اہلِ تصوّف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے یہاں سماع[قوالی و غیرہ]روا ہے اور وہ سنتے ہیں اور درباروں و مزاروں پر یہ عام ہے لہٰذا یہاں ہم بعض صوفیاء کے اقوال بھی نقل کر رہے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کے آج کے مجاوروں کا عمل اپنی جگہ،مگر انکے پیشوا بھی اس سماع و موسیقی اور گانے بجانے کو حرام ہی سمجھتے تھے۔ 1۔شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ: شہاب الدین سہروری کہتے ہیں:’’ چونکہ سماع وقوالی کی راہ سے فتنہ عام ہے اور لوگوں میں سے نیکی جاتی رہتی ہے اور اس راہ میں وقت برباد ہوتا ہے،عبادات کی لذّت کم ہوجاتی ہے۔
Flag Counter