Maktaba Wahhabi

78 - 90
سے مراد گانا ہے اور الّلغو کا لغوی معنیٰ ہر لا یعنی چیز ہے۔‘‘ اور سلفِ امت نے اسکی تفسیر گانے اور تمام باطل امور سے کی ہے۔ 5۔الباطل: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ نے گانے کو’’ باطل‘‘ قرار دیاہے اور ’’باطل ‘‘کاٹھکاناجہنّم ہے۔اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے’’ باطل ‘‘عربوں کے اُس غِناء کو کہا ہے جسمیں نہ تو شراب و شباب اور زنا و لواطت کی تعریفیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اسکے ساتھ ساز و موسیقی ہوتی ہے۔اگر وہ لوگ آج کے گانا و موسیقی کو سن لیں تو انکا فتویٰ اس سے بھی سخت ہو۔ 6،7۔المُکآء و التّصدیۃ: اللہ تعالیٰ نے کفّار کے بارے میں سورۃُ الانفال،آیت:۳۵ میں فرمایا ہے: ﴿وَ مَا کَانَ صَلٰوتُہُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً﴾ ’’ اور ان لوگوں کی نماز خانۂ کعبہ کے پاس سیٹیاں مارنے اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما،عطیہ،مجاہد،ضحاک،حسن بصری اور قتادہ رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ اَلْمُکَآئُ سے مراد سیٹیاں مارنا اور اَلتَّصْدِیَۃُ کا معنیٰ تالیاں بجانا ہے۔اہلِ لغت نے بھی اَلْمُکَآئُ کا معنیٰ سیٹی مارنا اور اَلتَّصْدِیَۃُ کا معنیٰ تالی بجانا ہی ذکر کیا ہے جو کہ ساز و موسیقی کی قسم ہے۔[1] 8۔رُقیۃ الزّنا: حضرت فضیل بن عیاض نے گانے کو ’’ رُقْیَۃُ الـزَّانِـْي‘‘ ’’ زانی کا منتر ‘‘ قرار دیا ہے۔ ا ور حضرت ابو ملیکہ نے کہا تھا:
Flag Counter