Maktaba Wahhabi

81 - 90
الْمُصِیْبَۃِ،خَمْشُ وُجُوْہٍ وَ شَقُّ جُیُوبٍ،وَ رَنَّۃُ شَیْطَانٍ))[1] ’’نہیں،بلکہ میں نے دو احمقانہ و فاجرانہ آوازیں نکالنے سے منع کیا ہے۔ایک مصیبت کے وقت کی آواز[چیخ و بَین]چہرے نوچنا اور گریبان پھاڑنا۔اور دوسری شیطانی چیخ چنگاڑ۔‘‘[جو خوشی کے موقع پر کی جاتی ہے]۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تلبیس ابلیس میں راگ سے وقوع پذیر ہونے والی بعض چیزیں ذکر کی ہیں جنکے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ گانے کو ’’ صوتُ الاحمق ‘‘ اس لیٔے کہا گیا ہے کہ راگ کی دھن میں انسان طرب و نشاط میں سر ہلاتا،ہاتھوں سے تالی مارتا،پیروں کو حرکت دیتا،جھوم جھوم کر چلتا،سیٹی بجاتا اور سامنے پڑی چیزوں پر دُھن سے ہاتھ مارنے لگتا ہے۔کبھی اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا ہے،ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے،اسکے اعضاء مخصوصہ میں حرکت و ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ کسی کے تصوّر میں ڈوب کر بڑی اہم یادداشتوں کو بھول جاتا ہے۔ نوحہ و بَین کرنے کے وقت بھی انسان چیخنا چلّانا شروع کر دیتا ہے۔ایسی حرکتیں اگر کوئی عام حالت میں کرے تو وہ احمق و بے وقوف اور پاگل کہلائے گا۔یہی وجہ ہے کہ گانے اور نوحہ کرنے والے کی آواز کو’’ احمق کی آواز ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اور انہی دونوں آوازوں کو ’’ صوتُ الفاجر ‘‘ اس لیٔے کہا گیا کہ یہ فجور اور اللہ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ ہی شیطان کی وفا داری کا اعلان ہوتی ہیں جوکہ فجوروگناہ ہے۔لہٰذا انہیں’’فاجر کی آواز ‘‘ بھی کہا گیا ہے۔[2] 14۔الصّوتُ الملعون: اس ساز و موسیقی اور گانے کو ’’الصوت الملعون‘‘ بھی کہا گیاہے،حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter