Maktaba Wahhabi

84 - 90
’’ اے ابو بکر!انہیں چھوڑ دو،ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بے دھیان ہوئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ نکل گئیں۔[1] تلبیس ابلیس میں امام ابن الجوزی نے لکھا ہے: ’’ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دونوں بہت ہی کم عمر بچیاں تھیں کیونکہ اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بھی کم عمر تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عمر کی بچیوں کو ان کے ساتھ کھیلنے کا موقع مہیّا فرمایا کرتے تھے۔‘‘[2] حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں بعض صحیح روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ شعر پڑھنے یا گانے والی بچیوں میں سے ایک حمامہ اور دوسری اس کی سہیلی تھی۔[3] ۱س حدیث میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بچیوں کے اس گانے کو مزمار[مزمور،مزامیر]الشّیطان کہنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکے اس لفظ پر نکیر نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گانا شیطانی بانسری و ساز ہے۔ اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن غیر مکلف بچیوں کو عید کے دن جنگی اشعار پڑھنے کی اجازت دینا اور کہاں خوبصورت غیر محرم عورتوں اور شہوت خیز لڑکوں کا ساز و موسیقی کے ساتھ زنا و فجور اور شراب و شباب کی دعوت دینے والے فحش گانے گانا۔؎ ببیں ایں تفاوت را از کجا تابہ کجا 19۔السّمود: گانے بجانے کو السّمود بھی کہا گیاہے جس کی قرآنِ کریم میں مذمّت کی گئی ہے چنانچہ سورۃُ النجم،آیت:۵۹،۶۰،۶۱ میں ارشادِ الٰہی ہے:
Flag Counter