Maktaba Wahhabi

23 - 90
شیخ محمد ابو زہرہ مصری کے بعض شاگردوں نے بھی اپنے استاد کی تقلید کرتے ہوئے نہ صرف موسیقی و گانے کو مباح و جائز قرار دیا بلکہ شیخ محمد الغزالی نے تو یہ ڈھینگ بھی مادی کہ وہ عالَمِ عرب کی مشہور سنگر اُم کلثوم کے گانے اور معروف موسیقار محمد عبد الوہاب وغیرہ کی موسیقی سنتے ہیں۔ ایسے ہی شیخ محمد ابو زہرہ کے ایک دوسرے شاگرد ڈاکٹر یوسف القرضاوی(دولۃ قطر)بھی ہیں جو گانے وموسیقی کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔۔۔ یہ چاروں حضرات دنیا کی انتہائی قدیم اور شہرت یا فتہ یونیورسٹی جامع ازہر کے ’’فیض یافتہ ‘‘ ہیں۔وہی جامع ازہر جہاں کبھی ایک فن کے طور پر موسیقی کی باقاعدہ تعلیم و تدریس جاری رہی۔[1] وَلاَ حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔ مصری وزیرِ اوقاف نے ملکی و وطنی خدمت پر مامور موسیقی کو نمازاور روزہ کی طرح ایک عبادت بنا دیا ہے۔پاکستان کے ایک سابق وزیرِ اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی نے بھی کچھ عرصہ پہلے فلمی دنیا سے متعلقہ لوگوں کے اجتماع میں موسیقی کو روح کی غذاء قرار دے دیا تھا۔اس طرح کے معروف لوگ جب ایسی کوئی بات کہہ دیں تو وہ کمزور دلوں میں شک پیدا کردیتی ہے کہ شائد اسکی کوئی گنجائش ہوگی،حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ گانا و موسیقی قطعاً حرام ہیں جس پر کتاب و سنّت کی نصوص اور آئمہ و علماء امّت کے اقوال شاہد ہیں۔ ایک شرعی قاعدہ: اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو ایک شرعی قاعدہ ذہن میں بٹھا لیں جو کہ کمالِ شریعت کا مظہر ہے اور وہ ہے:’’سدِّ باب ‘‘یا’’ سدِّ ذریعہ ‘‘ کہ اسلام نے اگر کسی چیز کو حرام قرار دیا تو اسکے تمام راستے اور دروازے بھی بند کر دیئے اور اس تک پہنچانے والے تمام وسائل و ذرائع کو بھی حرام کر دیا مثلاًجب زنا کو حرام قرار دیا تو اس تک پہنچانے والے تمام امور جیسے بے پردگی،
Flag Counter