Maktaba Wahhabi

83 - 202
ہے کیونکہ اس صورت میں یہ طے شدہ اضافہ ہی شمار ہوگا۔ منافع کی حدود شریعت میں نفع کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی جس سے زائد نفع لينا جائز نہ ہو،اس لیے کہ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ آتارہتا ہے۔بعض اوقات خریداری کے وقت قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر آئی ہوتی ہیں اور پھر ان میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے تاجروں کو سوفیصد نفع حاصل ہوجاتا ہے اور کبھی صورت حال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے کہ خریداری کے وقت تو قیمتیں انتہائی اوپر کی سطح پر ہوں اور بعد میں اچانک گرجائیں جس سے تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑے۔لہذا یہ شریعت مطہرہ کا کمال ہے کہ اس نےنفع کی کوئی شرح متعین نہیں فرمائی بلکہ اسے آزاد چھوڑدیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنا مال فروخت کریں جس سے قیمتیں خود ہی مناسب سطح پر آجائیں گی۔اس کی دلیل کے بعض حالات میں سوفیصد نفع بھی لیا جاسکتا ہے یہ روایت ہے: ’’حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی یابکری خریدنے کے لیے ان کو ایک دینار دیا تو انہوں نے دو بکریاں خرید لیں اور پھر ایک بکری ایک دینار میں بیچ دی۔ایک دینار اور ایک بکری لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے، آپ نے ان کے لیے خریدوفروخت میں برکت کی دعا فرمائی۔اس کے بعد اگر وہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی نفع ہوتا۔‘‘[1] لیکن اگر کوئی سامان اور اس کی مارکیٹنگ صرف کسی ایک شخص کے پاس ہوتو پھر اس کے لیے مارکیٹ سے زائد نفع لینا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے مشابہہ ہوگا کیونکہ جب لوگوں کو اس چیز کی حاجت ہوگی تو وہ اسی سے خریدنے پر مجبور ہوں گے خواہ اس کی قیمت کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
Flag Counter