Maktaba Wahhabi

82 - 202
مشتری کا فرض ہے کہ وہ طے شدہ مدت کے اندر ادائیگی یقینی بنائے، لیت ولعل یا پس وپیش نہ کرے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی ادائیگی پر قادر مقروض کی طرف سے ٹال مٹول کو ظلم سے تعبیر فرمایا ہے۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " لَيُّ الوَاجِدِ يُحِلُّ عُقُوبَتَهُ وَعِرْضَهُ " ’’ادائیگی پر قادر شخص کا ٹال مٹول کرنا اس کی سزا اور عزت کو حلال کردیتا ہے۔‘‘[1] سزا سے مراد قید اور عزت حلال کرنے کا مطلب اس کی سرزنش کرنا ہے یعنی ادائیگی پر قادر شخص اگر اپنے ذمے واجب قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو وہ قید اور مذمت کا مستحق ہے۔ تاہم فروخت کنندہ کو بھی چاہیے کہ وہ طے شدہ مدت سے قبل ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے۔اور اگر خریدار تنگدستی کی وجہ سے تاخیر کررہا ہو تو قرآنی حکم کے مطابق اس کو فراخدستی تک مہلت دی جائے اور اگر کسی وجہ سے بروقت ادائیگی نہ کرسکے تو جرمانہ وصول نہ کیا جائے کیونکہ یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے۔ہاں البتہ اگر مدیون(Debtor)ادائیگی کے وقت اپنی مرضی سے ازراہ احسان کچھ زائد ادا کرنا چاہے تو وہ بلاشبہ کرسکتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً " ’’بے شک تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو ادائیگی کرنے میں اچھے ہوں۔‘‘[2] حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: " كَانَ لِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ، فَقَضَانِي وَزَادَنِي " ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض لینا تھا تو آپ نے مجھے ادائیگی کی اور زائد دیا۔‘‘[3] لیکن ادھار دہندہ خود زائد طلب نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے بطور نظام نافذ نہیں کیا جاسکتا
Flag Counter