Maktaba Wahhabi

177 - 202
لیتا ہے تو بینک اس کو قرض لیا ہوا پورا سرمایہ نقد کی صورت میں قرض نہیں دیتا بلکہ اس کے کھاتہ میں اتنی رقم کا اضافہ کردیتا ہے۔یا اگر وہ بینک کا کھاتہ دار نہیں تو اس کا اکاؤنٹ کھول کر چیک بک جاری کردیتا ہے تاکہ وہ حسب ضرورت چیک کے ذریعے ادائیگی کر سکے،چنانچہ اس طرح بینک کے ڈپازٹ میں مصنوعی اضافہ ہو جاتا ہے۔مثلاً ایک شخص نے بینک سے دس کروڑروپے قرض لینے کا معاہدہ کیا۔اب بینک اس کو دس کروڑروپے نقد دینے کی بجائے اس کے اکاؤنٹ رقم درج کردے گا یا اس کا کھاتہ کھول کر چیک بک جاری کردے گا۔قرض لینے والے شخص کے کھاتہ میں یہ رقم درج ہونے یا اس کا کھاتہ کھلنے سے گویا بینک کے ڈپازٹ میں دس کروڑ کا اضافہ ہو گیا ہے۔اب بینک یہی رقم اسی طریقے سے کسی اور کوبھی قرض دے سکتا ہے جس کی وجہ سے بینک کے ڈپازٹ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔اس طرح زر کا پھیلاؤ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں زر کی فراہمی کا حجم بہت بڑا نظر آتا ہے۔اس عمل کو زر بینک یا کریڈٹ کی تخلیق کہتے ہیں۔اس ضربی عمل سے جہاں بے بنیاد اور حقیقی معیشت سے بے تعلق زروجود میں آتا ہے جو معاشی استحکام کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے وہاں زر کی تخلیق کا عمل حکومتی کنٹرول سے نکل کر بینکوں کے ہاتھ میں چلاجاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ زرمستحکم قدر کا حامل ہونا چاہیے اسلامی نظام معیشت کا مکمل ڈھانچہ عدل پر قائم ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان معاملات کو ممنوع قراردیا ہے جو عدل کے منافی ہیں، چونکہ تمام مالی معاملات درحقیقت زر ہی کے گرد گھومتے ہیں اور کسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زرکی قوت خرید میں غیرمعمولی کمی سے صاحب حق کا متأثر ہونا یقینی ہے جو تقاضا عدل کے خلاف ہے اسی بنا پر بعض مسلم مفکرین افراط زر کو بخس،تطفیف اور ملاوٹ میں شمار کرتے ہیں۔چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھے۔چنانچہ’’الموسوعۃ الفقہیہ‘‘میں مرقوم ہے۔
Flag Counter