اس کی تائید اوپر مذکورہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں غلے کی بجائے سامان کا تذکرہ ہے تاہم مختلف اشیاء کے اعتبار سے قبضہ کی نوعیت میں فرق ہے۔منقولی اشیاء کا قبضہ تو ان کو دوسری جگہ منتقل کرنا ہے اور جن اشیاء کو دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں جیسے اراضی اور مکانات وغیرہ ہیں ان کا قبضہ صرف یہ ہے کہ فروخت کنندہ تمام رکاوٹیں دورکرکے مشتری کو تصرف کا پورا موقع فراہم کردے۔اسی طرح جو اشیاء ہاتھ میں لے کر قبضہ کی جاتی ہیں جیسے کرنسی نوٹ ہیں ان کا قبضہ یہ ہے کہ ان کو ہاتھ میں لے لیا جائے۔
کموڈیٹی ايكسچينج میں کاروبار
جس طرح سٹاک مارکیٹ میں مختلف کمپنیوں کے حصص کا لین دین ہوتا ہےاسی طرح کموڈیٹی ایکسچینج (سوق تبادل السلع)میں مختلف اجناس جیسے خام تیل، چاندی، کپاس، چاول اور گندم وغیرہ کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔عصر حاضر میں قبضہ سے قبل فروخت کے سب سےزیادہ سودے کموڈیٹی ایکسچینج میں ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں کیونکہ یہاں تمام لین دین فیوچر سودوں (عقود مستقبلیات) یعنی ان سودوں کی شکل میں ہوتا ہے جن میں سچی گئی چیز کی سپردگی اور قبضہ مستقبل کی کسی تاریخ پر طے ہوتا ہے۔چونکہ یہاں کاروبار کرنے والوں میں حقیقی خریدار جن کا مقصد چیز کا حصول ہو بہت کم ہوتے ہیں اس لیے قبضہ اور سپردگی کی نوبت شاذونادر ہی آتی ہے بلکہ قیمت بڑھتے ہی وہ چیز آگے فروخت کردی جاتی ہے اور آخر میں قبضہ کے دن کی قیمت اور قیمت خرید کے درمیان فرق برابر کر لیا جاتا ہے۔اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنا آسان ہو گا۔مثلاً’’الف‘‘نے مقامی کموڈیٹی مارکیٹ سے تین ہزار نو سو روپے میں چاندی کی ایک لاٹ خریدی جس کی سپردگی ایک ماہ بعد طے پائی لیکن اگلے ہی روز چند دن بعد اس کی قیمت بڑھ کر تین ہزار نوسو پچاس روپے ہو گئی تو اب’’الف‘‘ ایک پچاس روپے منافع لے کر وہ لاٹ آگےفروخت کردے گا۔اور پھر سپردگی کی تاریخ آنے تک اس لاٹ پر مسلسل سودے ہوتے رہتے ہیں۔جب سپردگی کی تاریخ آتی ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ آخری خریدار نے یہ لاٹ کس قیمت پر
|