Maktaba Wahhabi

81 - 202
علماء نے اس کے دومفہوم بیان کیے ہیں: 1۔فروخت کنندہ یہ کہے کہ میں آپ کو نقد دس کی یا ادھار بیس کی بیچتا ہوں۔یہ مفہوم امام احمد رحمہ اللہ نے سماک رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دوسودوں سے منع فرمایا کی تشریح سماک رحمہ اللہ نے یوں کی ہے کہ فروخت کنندہ یہ کہے کہ ادھار اتنے کی اور نقد اتنے کی۔مگر یہ تشریح کمزور ہے کیونکہ اس صورت میں نہ تو سود شامل ہے اور نہ ہی دوسودے ہوئے ہیں، صرف دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ سودا طے پایا ہے۔ 2۔اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ فروخت کنندہ یوں کہے کہ میں آپ کو یہ چیز ایک سال کی مدت کے لیے ایک سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ میں آپ سے اسی کی نقد خرید لوں گا، حدیث کا اس کے علاوہ دوسرا کوئی معنی نہیں ہے۔‘‘[1] مندرجہ بالا تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ نقد اور ادھار خریداری میں قیمت کا فرق بالکل جائزہے۔جن حضرات نے ادھار فروخت میں زائد قیمت لینے کو سود قراردیا ہے ان کا موقف صحیح نہیں ہے۔مزید تفصیل کے لیے احقر کی کتاب ’’دورحاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ادھار خریداری میں ایک مرتبہ جو قیمت طے ہوجائےادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تاخیر کے نتیجے جو اضافہ بھی ہوگا وہ درحقیقت ادھار میں اضافہ ہوگا اور ادھار میں اضافی رقم لینا سودہے۔ ادائیگی بروقت کی جائے ادھار میں بیع مکمل ہوتے ہی قیمت مشتری کے ذمے دین (Debt) ہوجاتی ہے۔لہذا
Flag Counter