Maktaba Wahhabi

202 - 202
چونکہ دو مختلف ممالک کی کرنسیوں کے تبادلے میں دونوں طرف سے موقع پر ادائیگی لازمی شرط ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوچکا ہے اور اس صورت میں ڈالر کی سپردگی مؤخر ہوتی ہے اس لیے یہ جائز نہیں۔خود موجودہ اسلامی بینکاری کے شریعہ سکالرز بھی یہ کہتے ہیں کہ دومختلف کرنسیوں کے تبادلہ میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ ضروری ہے۔چنانچہ مروجہ اسلامی بینکوں کی رہنما دستاویز’’المعاییر الشرعیہ‘‘ میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہے: "أو بناء عليه اشترط فى تبادل العملات من الجنس نفسه التماثل بين البدلين و التقابض للبدلين قبل تفرق العائديل مع اختلاف الجنس فلا بأس من التفاوت ولكن لا بد من التقابض في المجلس" ’’ اسی بناء پرایک جنس کی کرنسی کے تبادلہ میں یہ شرط ہے کہ ددنوں جانب سے برابر برابر ہو اور فریقین کے الگ ہونے سے قبل قبضہ ہوجائے۔لیکن اگر جنس مختلف ہوتو پھر کمی بیشی میں تو کوئی حرج نہیں البتہ دونوں طرف سے مجلس میں قبضہ ضروری ہے۔‘‘[1] ملکی کرنسی کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ چونکہ ایک ہی ملک کے کرنسی نوٹ یکساں اوصاف کے حامل ہونے کی وجہ سے ایک ہی جنس شمار ہوتے ہیں اس لیے ان کاباہمی تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ کسی صورت جائز نہیں ہے۔لہذاعید کے موقع پر نئے نوٹوں کی خریدوفروخت جس میں نئے نوٹ دینے والا کم نوٹ دے کر اپنا معاوضہ رکھتا ہے شرعاً سودی لین دین ہے۔اسی طرح سو روپے کا نوٹ دے کر پچانوے سکے یا روپے لینا بھی سود میں داخل ہے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی چونکہ نوٹوں کو دھاتی سکوں پر قیاس کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں سے زرکا وصف ختم کرکے بحیثیت جنس
Flag Counter