Maktaba Wahhabi

162 - 202
سو ملین ہے۔چنانچہ ایس،پی، وی حکومت کے ایجنٹ کی حیثیت سے اس بلڈنگ کو پانچ سال کے لیے کرایہ پر دے کر اس کی کل قیمت سو ملین کےسوسو روپے کے ایک لاکھ سرٹیفکیٹ بنا کر جنہیں اجارہ صکوک کہا جاتا ہے سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں میں فروخت کردیتی ہے یوں حکومت کو پانچ سال کے لیے ایک سو ملین کی رقم حاصل ہوجاتی ہے اور اس بلڈنگ سے حاصل ہونے والا کرایہ صکوک ہولڈرز کے حصص کے تناسب سے ان میں تقسیم کیا جاتا ہے۔جب اجارہ کی پانچ سالہ مدت پوری ہوجائے گی تو ان صکوک کی ادائیگی کے ذریعے ملکیت دوبارہ حکومت کو مل جائے گی۔اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ ایک بینک نے پچاس ملین کے اثاثے مقررہ مدت کے لیے کرایہ پر دے رکھے ہیں اور اب وہ چاہتاہے کہ ان اثاثوں کی خریداری پرخرچ ہونے والی رقم اسے حاصل ہوجائے تو وہ ان اثاثوں کی بنیاد پر مخصوص مدت کے لیے اتنی مالیت کے صکوک جاری کرکے مارکیٹ میں فروخت کردیتا ہے، یوں بینک کو پچاس ملین کی رقم واپس مل جاتی ہے۔چونکہ صکوک خریدنے کی وجہ سے صکوک ہولڈرز اپنے حصص کے تناسب سے ان اثاثوں کے مالک بن جاتے ہیں اس لیے ان اثاثوں سے جو کرایہ حاصل ہوگا وہ اس میں ا پنی ملکیت کے بقدر شریک ہوں گے۔جب اثاثوں کے اجارہ کی مدت مکمل ہوجائے گی بینک ان صکوک کی ادائیگی کرکے دوبارہ مکمل مالک بن جائے گا۔ چونکہ یہ صکوک حصہ داری کے سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں اور ان کی بیع درحقیقت اس حصے کی بیع ہے جو ان کی پشت پر ہوتا ہے اس لیے اگر کوئی صکوک ہولڈر ان کی مقررہ مدت سے قبل کسی تیسرے فریق کے ہاتھ فروخت کرنا چاہے تو وہ خریدوفروخت بھی کرسکتا ہے۔ صکوک کے احکام صکوک کے اجراء میں کن اصولوں کی پابندی لازم ہے یہ سمجھنے کے لیے ان کی فقہی حیثیت کا تعین ضروری ہے تاکہ اس کو مدنظر رکھ کر ہی احکام ذکر کیے جائیں۔ہم نے اوپر جو تفصیل بیان کی ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ صکوک ہولڈرز کاباہمی تعلق شراکت داری پر مبنی ہوتا ہے، اس
Flag Counter