Maktaba Wahhabi

154 - 202
شرح سود کو معیار بنانا مزید برآں اسلامی بینکوں کا اپنے منافع اور کرائے کے تعین کے لیے سودی فارمولے اور مروجہ شرح سود کو معیار بنانا بھی قابل اعتراض پہلو ہے۔اس سلسلے میں اسلامی بینکوں کے تائید کندگان کا نقطۂ نظر نہایت کمزور ہے جس کی کوئی صاحب بصیرت حمایت نہیں کرسکتا۔اس کے حق میں کوئی دلیل تو پیش نہیں کی جاتی البتہ ایک فرضی مثال بیان کرکے اس کے جواز پر استدلال کیاجاتاہے وہ مثال یہ ہے۔ ’’زید اور خالد دو بھائی ہیں۔زید لوگوں کو سود پر قرض دیتاہے جبکہ خالد گارمنٹس کا کاروبار کرتا ہے۔خالد یہ کہتا ہے کہ میں اپنے گارمنٹس کے کاروبار سے کم ازکم اتنا منافع ضرور حاصل کروں گا جتنا میرابھائی زید سود لیتاہے۔چنانچہ وہ اپنی اشیاء پر زید کی شرح سود کے مطابق نفع لے کر آگے فروخت کرتاہے۔اگرچہ خالد کے لیے ایساکرنا پسندیدہ نہیں لیکن اگر وہ خریدوفروخت کی تمام شرائط پوری کررہا ہے تو اس کے کاروبار کو محض اس لیے ناجائز نہیں کہا جائے گا کہ اس نے شرح سود کو معیار بنایا ہے۔اسی طرح اگر روائتی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی شرح سود کے مطابق کرایہ لیں تو یہ ناجائز نہیں ہوگا۔‘‘[1] قطع نظر اس بحث سے کہ شریعت اسلامی کے مجموعی مزاج کے مطابق سود کے دلدادہ معاشرے میں منافع کو مروجہ شرح سود کے ساتھ منسلک کرنے کی کوئی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں، یاایک مستقل نظام کی صورت میں اس کے نفاذ سے استیصال سود کی کوششوں میں مدد ملے گی یا کہ ان کو دھچکا لگے گا، ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ خالد زید کی طرح مالیاتی ادارہ بنا کر مالی وسائل مہیا کرنے کا کام نہیں کرتا بلکہ گارمنٹس کی دکان کھولتا ہے جو واقعی تجارت ہے اور اس کا ارادہ بھی
Flag Counter