Maktaba Wahhabi

18 - 202
معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اس لیے اسلامی ریاست میں ان لوگوں کو کاروبار کی قطعاً اجازت نہیں جو خریدوفروخت اور تجارت کے متعلق اسلامی احکام سےواقف نہ ہوں۔چنانچہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔ " لاَ يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلاَّ مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ ." ’’ہمارے بازاروں میں وہی خریدوفروخت کرے جسے دین (کے تجارتی احکام) کی سمجھ ہو۔‘‘[1] تیرھویں صدی ہجری کے مالکی فقیہ محمد بن احم الرھونی رحمہ اللہ (متوفی 1230ھ) نے اپنے شیخ ابومحمد رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے ’’ کہ انہوں نے مراکش میں محتسب کو بازاروں میں گشت کرتے دیکھا جو ہر دکان کے پاس ٹھہرتا اور دکان دار سے اس کے سامان سے متعلق لازمی احکام کے بارہ میں پوچھتا اور یہ دریافت کرتا کہ ان میں سود کب شامل ہوتا ہے اور وہ اس سے کیسے محفوظ رہتا ہے۔اگر وہ صحیح جواب دیتا تو اس کو دکان میں رہنے دیتا اور اگر اسے علم نہ ہوتا تو اسے دکان سے نکال دیتا اور کہتا تیرے لیے مسلمانوں کے بازار میں بیٹھنا ممکن نہیں تو لوگوں کو سود اور ناجائز کھلائے گا۔‘‘[2] بے دين حلقوں کا پراپیگنڈہ اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام کے معاشی اور تجارتی احکام پر عمل کرنے سے ہماری کاروباری سرگرمیوں پر جمود طاری ہوجائے گا اور ہم معاشی اعتبار سے بہت پیچھے چلے جائیں گے، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی اور دیر پا ترقی کے لیے
Flag Counter