Maktaba Wahhabi

126 - 202
کسی قسم کے نزاع کا خطرہ بھی نہیں ہوتا لہٰذا یہ کہنا کہ قیمت فروخت کی فیصد کے اعتبار سے کمیشن طے کرنے کی صورت میں کمیشن کی رقم مبہم رہتی ہے۔درست نہیں۔ 3۔یہ مسلمہ اصول ہے کہ اجرت ہمیشہ کام کی نوعیت کے مطابق لی جاتی ہے نہ کہ محنت کی مقدار کے مطابق۔نیز کم قیمت چیز کا گاہک آسانی سے مل جاتا ہے جبکہ گراں قیمت چیز کی فروخت کے لیے زیادہ دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے اور ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کمیشن کی شرح متعین نہ کرنا بعض اوقات فروخت کار کمیشن کی کوئی خاص رقم یا شرح طے کرنے کی بجائے یہ کہہ دیتا ہے کہ آپ مجھے اس پلاٹ کے اتنے پیسے دے دیں، اس سے جتنے زائد ہوں گے وہ آپ کے ہیں۔اکثر اہل علم کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ اس صورت میں کمیشن واضح نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے پلاٹ طلب کی گئی قیمت سے زائد پر فروخت نہ ہو جس کی وجہ سے ایجنٹ اپنی محنت کےصلہ سے محروم رہے جبکہ دوسری طرف حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور تابعین میں سے امام زہری،حضرت قتادہ، ایوب سختیانی اور امام ابن سیرین رحمہ اللہ کی رائے میں اس طرح معاملہ کرنا صحیح ہے۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے۔ "وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:لَا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ بِعْ هَذَا الثَّوْبَ فَمَا زَادَعَلَى كَذَا وَكَذَا فَهُوَ لَكَ" ’’ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان یہ کہے کہ یہ کپڑا بیچ دو جو اس سے زائد ہوں گے وہ آپ کے ہوں گے۔‘‘[1] مشہورمحدث امام عبدالرزاق رحمہ اللہ اپنی کتاب مصنف میں نقل کرتے ہیں۔ "أخبرنا معمر عن الزهرى،وقتادة،و أيوب،وابن سيرين كانوا لا يرون
Flag Counter