Maktaba Wahhabi

120 - 202
میں کوئی حرج نہیں ہے۔نیز شریعت کے اصول’’ کہ جن معاملات سے منع نہیں کیا گیا وہ جائز ہیں‘‘ کا بھی یہی تقاضا ہے کہ کمیشن جائز ہو کیونکہ قرآن وحدیث سے اس کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ دلالی کی اجرت کو جائز نہیں سمجھتے۔[1] تاہم متاخرین حنفیہ اسے جائز ہی قراردیتے ہیں جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی نے وضاحت کی ہے: "وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به" ’’حاوی میں ہے کہ محمد بن سلمہ سے بروکر کی کمیشن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘[2] ان کے علاوہ ابن نجیم حنفی نے بھی اپنی کتاب’’الاشباہ والنظائر‘‘ میں اسے لوگوں کی ضرورت ہونے کی بنا پر جائز قراردیاہے۔[3] کمیشن پر خریدوفروخت کی فقہی نوعیت بعض فقہاء ومحدثین کرام کمیشن پر خریدوفروخت کے مسائل اجارہ یعنی کرایہ داری کے معاملات اور بعض جُعالہ کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں جبکہ بعض اسے وکالہ(Agency)بھی کہتے ہیں۔صحیح بخاری میں بھی اس کا تذکرہ اجارہ کے عنوان میں ہواہے۔چونکہ بنیادی طور پر اجارہ، جعالہ اور وکالہ تینوں جائز ہیں اس لیے اس اختلاف کی کمیشن کے جواز پر زد نہیں پڑتی۔اجارہ اور ایجنسی کی حقیقت تو معروف ہے البتہ جعالہ قدرے غیر معروف اصطلاح ہے اس لیے یہاں اس کا
Flag Counter