اور اسی کو اپنا کاروبار بنا لے تو زر اس کے پاس مقید ہوکر رہ جائے گا اور جمع شدہ خزانے کی مانند ہوجائے گا....اور زر کو زر کے بدلے بیچنے کا معنی یہی ہے کہ زر کو ذخیرہ کا مقصد ٹھہرالیاجائے جو کہ ظلم ہے۔‘‘
یہاں یہ بات بہرحال ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ زر کی خریدوفروخت صرف اسی صورت میں منع ہے جب جنس ایک ہو لیکن جب جنس مختلف ہو جیسے دینار کا درہم کے ساتھ تبادلہ تو پھر یہ بلاشبہ جائز ہے جیسا کہ خود امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیاہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’اگر تم یہ کہو کہ پھر ایک دینار کا درہم سے تبادلہ اور درہم کے بدلے اسی قسم کے درہم لینا کیوں جائز ہے؟تو جان لیجئے! آلہ مبادلہ ہونے کے اعتبار سے ایک زردوسرے زر سے مختلف ہے کیونکہ جو مقصد ایک سے حاصل ہوتا ہے وہ دوسرے سےحاصل نہیں ہوتا جیسے دینار کے درہم بنائے جائیں تو اس سے تھوڑی تھوڑی بہت سی ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں (یعنی ایک زر کی قوت خرید دوسرے کی قوت خرید سے مختلف ہے)۔لہذا اس پر پابندی سے خلل واقع ہوگا یعنی دوسری اشیاء کے حصول کا آسان ذریعہ باقی نہیں رہے گا۔اور درہم کا اسی قسم کے درہم سے تبادلہ اس لیے صحیح ہے کہ اس میں کسی عاقل کودلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی تاجر اس کام کو اختیار کرتاہے کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی درہم زمین پر رکھ کر دوبارہ اٹھا لے۔ہمیں عقلمندوں کے بارے میں یہ اندیشہ نہیں ہے کہ وہ اس میں اپناوقت صرف کریں گے لہذا جس کام میں لوگ رغبت نہیں رکھتے ہم اس سے منع بھی نہیں کرتے۔‘‘[1]
دو مختلف کرنسیوں کے باہم تبادلہ کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
کیا زر سونے،چاندی کا ہونا ضروری ہے؟
بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی
|