Maktaba Wahhabi

179 - 202
ضروری ہے کہ یہ متعین اور کنٹرول میں ہو، اس کی مالیت میں اتارچڑھاؤنہ ہو کیونکہ اگر سامان تجارت کی طرح زر میں اتار چڑھاؤ ہو تو ہمارے پاس اشیاء کی قیمت لگانے کے لیے کوئی ثمن (زر) نہیں رہے گا بلکہ سب سامان ہی ہو گا حالانکہ اشیاء کی قیمت لگانے کے لیے لوگ ثمن کے محتاج ہیں۔اور یہ ایسے نرخ کے ذریعے ممکن ہے جس سے قیمت کی معرفت حاصل ہو اور تب ہی ہو سکتا ہے جب اشیاء کی قیمت لگانے کے لیے ایک زر ہو اور وہ ایک ہی حالت پر رہے۔اور اس کی قیمت کا معیار کوئی دوری چیز نہ ہو کیونکہ اس صورت میں وہ خود سامان (Commodity) بن جائے گا جس کی قیمت بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے نتیجتاً لوگوں کے معاملات خراب ہو جائیں گے، اختلاف پیدا ہو گا اور شدید ضرر لاحق ہو گا۔‘‘[1] یعنی کرنسی ایسی ہونی چاہیے جس کی مالیت میں عام اشیاء کی طرح غیر معمولی کمی واقع نہ ہو بلکہ معقول حد تک مستحکم قدر کی حامل ہوتا کہ لوگ ضرر کا شکار نہ ہوں۔ زر کی قدر میں استحکام کیسے لایا جائے؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان چلا آرہا ہے اور آج کل تو اس کی قدر بہت تیزی سے گر رہی ہے، اس کے برعکس سونے چاندی کی قوت خرید خاصی مستحکم ہے بالخصوص سونے کی قوت خرید میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اگر کسی بحران یا سونے کے مقابلہ میں اشیاء و خدمات کی قلت کی بنا پر ایسا ہوا بھی تو کمی کا یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہا، بلکہ اس کے اسباب دور ہونے کے بعد صورت اس کے برعکس ہوگئی۔اگر عہدرسالت میں سونے کی قوت خرید کا اس کی موجودہ قوت خریدسےتقابل کیا جائے تو کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔بطور نمونہ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔
Flag Counter