Maktaba Wahhabi

109 - 202
نہ ہوا تو چیز واپس فروخت کنندہ کو مل جائے گی۔‘‘[1] دوسرے گروہ کے دلائل جن حضرات کے نزدیک بیعانہ کی بنیاد پر خریدو فروخت صحیح ہے ان کے دلائل یہ ہیں۔ 1۔حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَلَّ الْعُرْبَانَ فِي الْبَيْعِ " ’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں بیعانہ کو جائز قرار دیا ہے۔‘‘[2] 2۔صحیح بخاری میں ہے: " وَاشْتَرَى نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الحَارِثِ دَارًا لِلسِّجْنِ بِمَكَّةَ مِنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ عَلَى أَنَّ عُمَرَ إِنْ رَضِيَ فَالْبَيْعُ بَيْعُهُ وَإِنْ لَمْ يَرْضَ عُمَرُ فَلِصَفْوَانَ أَرْبَعُ مِائَةِ " ’’نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے قید خانہ کے لیے ایک گھر اس شرط پر خریدا کہ اگر حضرت عمر راضی ہو گئے تو بیع مکمل ہو جا ئے گی اور حضرت عمر راضی نہ ہوئے تو صفوان بن امیہ کے لیے چارسو (درہم) ہونگے۔‘‘[3] 3۔حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: " قَالَ رَجُلٌ لِكَرِيِّهِ أَدْخِلْ رِكَابَكَ، فَإِنْ لَمْ أَرْحَلْ مَعَكَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، فَلَكَ مِائَةُ دِرْهَمٍ. فَلَمْ يَخْرُجْ، فَقَالَ شُرَيْحٌ مَنْ شَرَطَ عَلَى نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَهْوَ عَلَيْهِ"
Flag Counter