Maktaba Wahhabi

127 - 202
ببيع القيمة بأساً، أن يقول:بع هذا بكذا وكذا، فما زاد فلك. " ’’ہمیں معمر نے زہری،قتادہ رحمہ اللہ،ایوب اور ابن سیرین سے بیان کیا کہ وہ بیع القیمہ یعنی کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ اس چیز کو اتنے اتنے میں بیچ دو جو زائد ہوں گے۔وہ آپ کے ہیں۔‘‘[1] چونکہ اس صورت میں یہ بھی احتمال ہے کہ ایجنٹ مالک کی سوچ سے بہت زیادہ قیمت پر فروخت کرنے میں کامیاب ہو جائے جس کی وجہ سے ایجنٹ اور مالک کے مابین کشیدگی اور بد مزگی پیداہو جیسا کہ مشاہدہ ہے یا طلب کی گئی قیمت پر ہی فروخت ہو سکے اور ایجنٹ کو کچھ بھی نہ ملے اس لیے بعض علماء کے خیال میں پہلی رائے ہی راجح ہے۔ فائدہ: اگر یوں کہا جائے کہ آپ مجھے اتنے پیسے دے دیں اس سے جو زائد ہوں گے وہ میرے اور آپ کے درمیان نصف نصف تقسیم ہوں گے تو اس میں بھی وہی اختلاف ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ دو طرفہ کمیشن کمیشن ایجنٹ کو ادائیگی کس کی ذمہ داری ہے؟ اس بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ اس کا فیصلہ رواج اور باہمی شرائط کے مطابق ہوگا۔اگر صرف فروخت کار سے لینے کی شرط طے کی گئی ہو یا رواج ہی یہ ہوتو ایسی صورت میں صرف فروخت کار سے کمیشن لی جائے گی اور اگر فقط مشتری سے لینے کی شرط طے ہو یا رواج ہو تو فقط مشتری ادا کرے گا اور اگر دونوں سے لینے کا رواج ہو یا شرط ہو تو دونوں اداکریں گے اور اگر ایسی کوئی شرط یا رواج نہ ہو تو صرف فروخت کا رادا کرے گا۔چنانچہ ممتاز مالکی فقیہ علامہ محمد عرفہ دسوتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ "واعلم أن الأصل في جعل السمسار أن يكون علي البائع عدام
Flag Counter