Maktaba Wahhabi

113 - 202
٭ قاضی شریح کا فیصلہ اگرچہ اجارہ کے بارہ میں ہے مگر اجارہ بھی بیع کی قسم ہے اور جس طرح سواری بک کرانے والا مالک کو پابند بنا دیتا ہے کہ دوسرے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اسی طرح بیعانہ دینے والا بھی شخص بھی کرتا ہے۔نیز ان کے الفاظ: ’’ کہ جو خوشی سے بغیر کسی جبر کے اپنے اوپر کوئی شرط عائد کرے تو وہ اس کو پوری کرنا ہوگی۔‘‘ سے بھی دوسرے گروہ کے موقف کو تقویت پہنچتی ہے۔ ٭ حضرت سعید بن مسیب اور امام بن سیرین کے قول کا مطلب ہے کہ اگر مشتری کٹوتی کی شرط پر خریدی گئی چیز واپس کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی اس کا تعلق بیعانہ سے نہیں بلکہ بیع کا معاملہ مکمل ہونے کے بعد اس کی واپسی سے ہے جیسا کہ ’’واپس کرے‘‘ کےالفاظ سے معلوم ہو رہا ہے۔چونکہ بیعانہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ خریدار فروخت کنندہ کو کچھ رقم ادا کرتا ہے اس لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کو بیعانہ سے ملتی جلتی ایک صورت قراردیا ہے۔[1] راجح موقف اس تجزیہ سے صاف واضح ہے کہ بیعانہ کے حق یا مخالفت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی روایت بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔البتہ نافع بن عبدالحارث کے واقعہ،قاضی شریح کے فیصلے حضرت سعید بن مسیب اور امام ابن سیرین کے اقوال کی روشنی میں ان حضرات کے نقظہ نظر پرعمل کی گنجائش نکلتی ہے۔جو اس کو سمجھتے ہیں۔علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: "الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ " ’’مسلمانوں اپنی شرائط کے پابند ہیں۔‘‘[2]
Flag Counter