Maktaba Wahhabi

128 - 202
الشرط،أوالعرف" ’’جان لو! بلا شبہ برو کر کی اجرت کا اصول یہ ہے کہ جب شرط یا رواج نہ ہو تو وہ فروخت کنندہ کے ذمہ ہو۔‘‘[1] کیونکہ ایسی صورت میں کمیشن کی رقم قیمت میں شامل ہوگی لہٰذا اس کی ادائیگی فروخت کنندہ کی ذمہ داری ہوگی۔بعض حضرات کے خیال میں ایک ہی ایجنٹ دونوں طرف سے کمیشن نہیں لے سکتا لیکن یہ رائےدرست نہیں۔اگر کوئی ایجنٹ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کی طرف سے خدمات انجام دیتا ہے تو وہ دونوں طرف سے کمیشن لے سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرض کے بدلے زائد کمیشن لینا بعض بیوپاری اپنی طرف سے بہت کم سرمایہ لگاتے ہیں اور زیادہ سر مایہ آڑھتی سے قرض لے کر کاروبار کرتے ہیں۔آڑھتی اس شرط پر قرض دیتا ہے کہ وہ اپنا خریدا ہوا مال اسی کے پاس لا کر فروخت کریں گے اور اس رقم سے اپنا قرض بھی ادا کریں گے۔یہ حرام ہے کیونکہ حدیث میں ایسے قرض کی ممانعت آئی ہے جو فائدے کا باعث بنے۔اور عموماً اس قسم کے بیوپاریوں سے دوسروں کی نسبت کمیشن بھی زائد لی جاتی ہے جو کہ سود کی تعریف میں آتی ہے۔بعض حضرات اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آڑھتی کی طرف سے دی گئی رقم قرض نہیں بلکہ پیشگی ہوتی ہے جس طرح کہ بیع سلم میں پیشگی قیمت ادا کی جاتی ہے مگر یہ تاویل باطل ہے کیونکہ یہ رقم نہ تو بیع کی بنیاد پر لی جاتی ہے اور نہ ہی اس میں بیع سلم کی شرائط ملحوظ رکھی جاتی ہیں۔ کمیشن ایجنٹ کی حق تلفی یہ بات صحیح ہے کہ شرعاً انسان اس امر کا پابند نہیں ہے کہ وہ اپنی جائیداد کا لین دین ایجنٹ کی وساطت سے ہی کرے بلکہ وہ براہ راست بھی سودا کر سکتا ہے لیکن ایجنٹ کے توسط گاہک تلاش کرنے یا
Flag Counter