Maktaba Wahhabi

151 - 202
2۔ بينك كو معاملہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دینا اور کلائنٹ کو ہرصورت اس کے ساتھ معاملہ کرنے کا پابند بنانا امتیازی سلوک ہے جو نام نہاد اسلامی بینکوں کے غیر منصفانہ مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فریقین کو معاملہ کرنے یا نہ کرنے کا حق مساوی حاصل ہو۔چنانچہ ڈاکٹر رفیق یونس مصری رقمطراز ہیں۔ "اني أري ضرورة الخيار لكلا المتواعدين، أما الخيار لأ حدهما فقط فهو تحكم" ’’ میرے خیال میں دونوں وعدہ کرنے والوں کو اختیار ہونا چاہیے۔فقط ایک کو اختیار دینا سینہ زوری ہے۔‘‘[1] باقی رہی یہ بات کہ بینک کلائنٹ کو قبضہ دینے کی تاریخ سے کرایہ لینا شروع کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اس سے پہلے اجارہ کا معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا اصل وجہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ مطلوبہ چیز پر کلائنٹ کے قبضہ کی تاریخ سے مؤثر ہورہاہے۔غرض یہ کہ مطلوبہ چیز کی خریداری سے قبل بینک کا کلائنٹ سےاجارہ کا عدالتی طور پر لازم وعدہ لینا حقیقت میں معاہدہ اجارہ ہے جو شریعت کے منافی اور اجارہ قوانین سے متصادم ہونے کی بنا پر ناجائز ہے۔ اسی طرح اجارہ کے باضابطہ معاہدے کے موقع پر کلائنٹ سے یہ وعدہ لینا بھی خلاف شرع ہے کہ وہ مختلف شقوں کی خلاف ورزی کے باعث بینک کی طرف سے اجارہ ختم کرنے کی صورت میں طے شدہ قیمت پر گاڑی خریدنے کا پابند ہوگا۔ سیکورٹی ڈپازٹ کاحکم شرعی اعتبار سے سیکورٹی ڈپازٹ کی حیثیت کیا ہے؟ اس سوال کا شافی جواب مروجہ اسلامی بینکوں کے شریعہ ایڈوائزرز کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ وہ خود بھی اس پر مطمئن نہیں ہیں۔یہی وجہ
Flag Counter