Maktaba Wahhabi

156 - 202
اسلامی بینکوں کا طریق کار بھی یہی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی بینک اس کو علیحدہ وصول کرنے کی بجائے اپنے اخراجات میں شمار کر لیتا ہے۔اگر صرف الگ لینے اور اخراجات میں شمار نہ کرنے کا مسئلہ ہے تو شائد سودی بینکوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اسلامی بینک اس عرصہ کا منافع (سود) کس اصول کے تحت اپنی لاگت میں شمار کرتے ہیں اسلامی بینکوں کے محققین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے سوائے اس کے کہ چونکہ فریقین باہمی رضا مندی سے کوئی بھی کرایہ مقرر کر سکتے ہیں اس لیے شرعاً بینک کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ دیگر اخراجات کے ساتھ(Grace Period Profit)کا اعتبار کرے۔[1] لیکن سوال یہ ہے کہ عام اجارہ میں بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں یا خود آپ نے اجارہ کا معاملہ کرتے ہوئے کبھی یہ سوچایا کیا ہے کہ چونکہ اس گاڑی کے پیسے میں تین ماہ قبل جمع کرائے تھے اور ان تین مہینوں میں مجھے اس رقم پر اتنا سود ملنا تھا اس لیے میں اپنے دیگر اخراجات کے ساتھ ان مہینوں کا سود شمار کر کے اتنا کرایہ لوں گا۔اگر کسی وقت آپ یہ غلطی کر بھی بیٹھیں تو کلائنٹ دو ٹوک الفاظ میں کہے گا کہ مجھے اس سے غرض نہیں ہے جب عام اجارہ میں ایسا نہیں ہے تو آخرآپ اسلامی بینکوں کو یہ پروانہ دینے پر اصرار کیوں کر رہے ہیں؟ نتیجہ بحث مذکورہ بالاتحقیق و تفصیل سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ اسلامی اجارہ کے اصولوں کی بجائے سودی بینکوں میں راج لیزنگ کے تصور پر قائم ہے جس کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔مجوزین کی تمام توجیہات و تاویلات حقیقت سے بعیداور خلاف شریعت ہیں۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا
Flag Counter