Maktaba Wahhabi

183 - 238
کیونکہ وہ شرک پر لگا ہوا ہے۔ہر مشرک بد اخلاق ہوتا ہے۔ اس کا شرک کرنا ہی اخلاقی بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ بلکہ سب سےپرلے درجہ کی بد اخلاقی شرک کا ارتکاب ہے۔ پس اس صورت میں بعض کفار کے بعض اچھے معاملات کی وجہ سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔کیونکہ ان کا یہ رویہ ان کی دنیاوی مصلحتوں اور قریبی مقاصد کے تحت ہوتا ہے؛ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں بروز قیامت کسی قسم کے ثواب کی کوئی امید نہیں رکھتے ۔  فائدہ مند اخلاق وہی ہیں جن کا حامل اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہو؛ تاکہ بروز قیامت وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے شرف اور جنت میں داخلہ کی سعادت سے بہرہ ور ہو اور بلند درجات پر فائزہو کر کامیابی حاصل کرسکے۔فرمان الٰہی ہے : ﴿ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُوْرًا ، ﴾ [٧٦:٩] ’’ ہم تمہیں خاص اللہ کے لیے کھانا دیتےہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں چاہتے۔‘‘  اور نہ ہی وہ بدلہ اور معاوضہ ؍قرض چکانے کے طور پر ایسا کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان گرامی ہے: ’’ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے۔‘‘ [ البخاری؛حدیث نمبر: 5991 ] جو کوئی دنیاوی معاملات کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتا ہے؛ تو اسے دنیا میں سے صرف اتناکچھ ہی مل سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے نصیب میں لکھ دیا ہے۔مگر وہ اپنے لیے آخرت میں ثواب کا نقصان کر رہا ہے۔ اسے بدلہ اور معاوضہ کے طور پر اچھے اخلاق اپنانے کا نتیجہ برداشت کرنا پڑے گا۔بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اچھی طرح سے جواب نہیں دے سکتے۔ اور نہ ہی وہ احسان کرنے والے کے ساتھ اچھی طرح سے سلوک کرنا جانتے ہیں ۔ بلکہ بہت سارے لوگ گندی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ؛ اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو وہ اپنے محسن کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ خیرخواہ ناصح لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے میں ان سے کسی بدلہ یا جزاء کی امید یا انتظار نہیں کرتا۔ اس کی نظر اور امید اس چیز پر ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن احادیث میں حسن اخلاق کی ترغیب وارد ہوئی ہے ان میں قیامت کے دن حسن اخلاق کا ثواب بیان ہوا ہے کہ وہ انسان جنت میں داخل ہوگا؛ اور اسے بلند درجات پرفائز کیا جائے گا؛ اورجیسے جیسے انسان اپنے اخلاق کی اصلاح کرتا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہوتا جاتا ہے؛اوراللہ تعالیٰ کے اپنے اجر و ثواب میں اس کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اگر انسان ایسا اللہ کی رضامند اور اس کی خوشنودی کے لیے نہ کرے؛ بلکہ اس کا مقصد دنیاوی مصلحت ہو تو اس کا شمار انسان کے نیک اعمال میں نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ نیک اعمال کی شرط یہ ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ثواب کی امید رکھی جائے۔ اور عمل کرنے والے کا مقصود اللہ تعالیٰ کی قربت کا حصول ہو۔  خلاصہ کلام! اخلاق کا دین میں بہت بڑا بلند اور عالیشان مقام ہے؛ شیخ رحمہ اللہ کا مقصد یہاں پر ان جملہ امور اخلاق میں سے چند ایک اچھے اخلاقیات کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ جن سے ایک مسلمان کو متصف ہونا چاہیے۔ ٭٭٭
Flag Counter