Maktaba Wahhabi

114 - 238
((وَلَا تَقُومُ السَّاعَةَُحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ))(ابوداؤد 4252 ؛ الترمذی 221) ’’ اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں ۔‘‘ اس سے زیادہ واضح اور کون سی چیز ہوسکتی ہے۔یہ صحیح اور ثابت حدیث ہے۔ مگر یہ لوگ محکم نصوص کو ترک کر دیتے ہیں اور متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ ان سے استدلال کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  ((إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ ))(مسلم 2812 ) ’’بیشک شیطان یقینی مایوس ہوچکا ہے کہ نمازی حضرات اس کی جزیرہ عرب میں عبادت کریں ۔‘‘ ایسا انسان لوگوں سے کہتا ہے: ’’ جزیرہ عرب میں ہر گز کبھی بھی شرک نہیں ہوسکتا۔‘‘ جبکہ علمائے کرام رحمہم اللہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں کہ: ’’ جب شیطان نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ایمانی قوت اور توحید میں ان لوگوں کی محنت دیکھی ؛ تو اس کے دل میں ایک مایوسی داخل ہوئی کہ جب ایمان کا یہ حال ہے تو اب کبھی بھی اس کی بندگی نہیں کی جا سکے گی۔لیکن ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ لوگوں پر بعد میں آنے والا زمانہ پہلے سے برا ہوتا ہے۔ اوروہ ہر سال پیچھے کی طرف ہی جاتے رہتے ہیں ۔ اس میں ٹھہراؤ نہیں آیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین سے روکنے؛ گمراہ کرنے اور بھکانے کا عمل مسلسل جاری ہے؛ حتی کہ امت کے کچھ گروہ بتوں کی پوجا کرنے لگ گئے۔ عوام الناس اور جاہل لوگوں کے ساتھ یہ کتنا بڑا جرم ہے کہ انہیں کہا جاتا ہے کہ اب اس امت میں شرک ہر گز واقع ہی نہیں ہوگا۔ اور اس طرح وہ اپنی ضروریات کو پورا کرتےہیں ۔ان کو کہنا چاہتے تھا: ’’ یا اللہ ہمیں شرک سے محفوظ رکھ۔‘‘ مگر یہ لوگ شرک کے خطرات کا احساس نہیں کرتے۔ اور نہ ہی لوگوں کو شرک کی معرفت حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں ۔ پس آپ دیکھیں گے کہ ان میں بہت بڑے وسیع پیمانے پر ان کے اعمال و اقوال اورتصرفات میں شرک داخل ہو چکا ہے۔ مگر ابھی تک ان کا گمان یہی ہے کہ اس امت میں شرک واقع نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہ خود شرک میں لت پت ہو چکے ہیں ۔ اس سے ان ائمہ کا خطرہ واضح ہوتا ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ شرک کا خطرہ تمام لوگوں پر واجب ہوتا ہے کہ وہ شرک کے خطرات کو محسوس کریں ؛ اور اس سے بچ کر رہیں ۔ اوریہ کہ انسان کو ہر چیز سے زیادہ شرک کا خوف ہونا چاہیے۔ اور وہ اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرے کہ کہیں شرک میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ اس مجاہدہ کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ شرک کی معرفت حاصل کرے۔ قدیم دور میں علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے تھے:  ’’وہ انسان کیسے بچ سکتا ہے جس کو یہ پتہ ہی نہ ہو کہ کس چیز سے بچنا ہے۔‘‘  جس انسان کو یہ پتہ نہ ہو کہ شرک کیا ہے؟ اور اس کی اقسام کون کون سی ہیں ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور کون سے اموراس میں داخل ہیں ؟ اور ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟پس شرک سے بچنے کا پہلا بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ شرک اور اس کی حقیقت کی معرفت حاصل کی جائے۔ اور اس معرفت سے مقصود شرک سے بچنا اور خبردار رہنا ہونا چاہیے۔ تو ان شاء
Flag Counter