Maktaba Wahhabi

113 - 238
عبادت کے دوران بہت سارے لوگوں کا سب سے بڑا اور اہم کام اپنی سادہ اور ویڈیوتصاویر بنانا ہی ہوتا ہے؛ جس کا بڑا مقصد اسے لوگوں کو دیکھانا ہوتا ہے۔ حتی کہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے اور دوسرے لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ ان میں سے بہت سارے لوگ جو فضیلت والے-عبادت اور دعا کے - مقامات پر کھڑے ہو جاتے ہیں ؛ پھر دعا کرنے کی شکل بنا کر ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اچھی طرح سے تیار ہو کر اپنی تصاویر بناتے ہیں ۔ اور بس اتنا کچھ کر لینے سے ہی اس کا کام ختم ہو جاتا ہے ۔ان کے لیے سب سے بڑی اور اہم چیزکعبہ کے پاس ؛ جمرات کے پاس ؛ سعی کے مقام پر اور عرفات میں اور دیگر اہم مواقع پر تصویر بنانا ہی ہوتا ہے۔ پھر ان تصاویر کو بڑا کرکے بیٹھک میں یا مجلس وغیرہ میں لگایا جاتا ہے۔ یا پھر ان کے البم بنائے جاتے ہیں تاکہ اپنے ملنے والوں کو یا ملاقات کے لیے آنے والوں کو دیکھاسکیں ۔ ہمارے اس دور میں خصوصی طور پر اس معاملہ میں خطرناک حد تک تجاوز کر لیا گیا ہے۔ کیونکہ اب تصویر بنانے کے وسائل عام ہوگئے ہیں حالانکہ پہلے زمانہ میں اگر کوئی کسی کو کچھ دیکھانایا بتانا چاہتا ہوتا تو وہ اسے اپنی زبان سے ہی بیان کر سکتاتھا ۔ مثلاً مجلس میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے: میں مکہ گیا؛اور میں عرفات میں رو رہا تھااور میں بڑا ڈرا ہوا تھا اور میں نے جمرات کے پاس کھڑے ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے....؛جبکہ اب ریاکاری بغیر کسی کلام کے ہورہی ہے دوسروں کو ویڈیو اور تصاویر دیکر کہا جاتا ہے؛ اب ان کو دیکھ لو ۔ اب کسی کلام یا وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ حتی کہ ہمارے ایک فاضل دوست نے مجھے بتایا؛ کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا؛ جو کہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مسجد میں تھا؛اس کے ساتھی نے اسے کیمرہ دیا؛ اور خود التحیات کی صورت بناکر بیٹھا؛ اور اس کی تصویر بنائی گئی۔ پھرکھڑا ہوا اور چل دیا۔ اب اس تصویر کا مقصد کیا ہے؟اپنے ساتھیوں کو بتاناہے کہ: ’’یہ میری تصویر ہے؛ میں مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘جبکہ وہ جھوٹ بولتا ہے؛یہ تصویر اس کی نماز کی نہیں ۔وہ تو تصویر بنوانے کے لیے اس حالت میں بیٹھا تھا۔ پہلا انسان جس نے دعاء کی صورت میں ہاتھ اٹھائے ؛ وہ بھی کہتا ہے: ’’یہ میری دعا کرنے کی تصویر ہے‘‘؛ وہ جھوٹ بولتا ہے؛وہ اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کر رہا تھا[بلکہ ایسی حالت بنا کر کھڑا ہوگیا تھا]۔ یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے؛ اتنے دور دراز کے سفر کرنے ؛ مال خرچ کرنے اور مشقت اٹھانے کے بعد وہ عمل کیا جارہا ہے جس سے اس کے اعمال تباہ ہو جاتے ہیں ۔ ٭ جوچیز شرک سے خوف کو واجب کرتی ہے؛ گمراہی کی دعوت دینے والوں اور ائمہ باطل کی کثرت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں ان لوگوں کا خوف محسوس کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:   ’’ میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف محسوس کرتا ہوں وہ گمراہی کے ائمہ ہیں ۔‘‘  اب ایسے گمراہ ائمہ موجود ہیں جو لوگوں سے کہتے ہیں : آپ مطمئن رہے؛ اب شرک کبھی مطلق طور پر واقع نہیں ہو گا۔ پھر معاملہ ان پرخلط ملط کر دیتے ہیں ۔اور بعض احادیث میں تاویل کرکے ان کے کچھ معانی نکالتے ہیں اور اس سے شبہ پیدا کرتے ہیں ۔ پس لوگوں کے سامنے وہ متشابہ احادیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ اور محکم اور واضح احادیث کو ترک کر دیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
Flag Counter