Maktaba Wahhabi

167 - 702
زکات و صدقات 33۔ زکات کی رقم مدرسے میں دینا: [1] سوال : اموالِ زکوٰۃ مفروضہ میں سے مدرستہ العلوم میں دینا بایں طور کہ نقد روپیہ یا کتب حوالہ مہتممان مدرسہ کے کیا جاوے کہ وہ لوگ داخل مدرسہ کر کے نفقہ طلبا و مشاہرہ مدرسین و دیگر مصارف مدرسہ میں صر ف کریں اور وہ کتب درس و تدریس میں رہیں ۔ از روئے کتاب اللہ تعالیٰ و سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائز ہے یا نہیں ؟ ائمہ حنفیہ کا اس باب میں کیا مسلک ہے؟ جواب : حسب تصریح فقہائے حنفیہ اموال زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے، یعنی اس مال کو کسی اہل مصرف زکوٰۃ کی ملک گردانے، اس لیے بنائے مساجد و تکفین اموات میں اموال زکوٰۃ کو صرف کرنے سے عندالاحناف زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ ہدایہ میں ہے: ’’ولا یبنی بھا مسجد، ولا یکفن بھا میت، لانعدام التملیک، و ھو الرکن، ولا یقضی بھا دین میت، لأن قضاء دین الغیر لا یقتضي التملیک منہ، لا سیما في المیت‘‘[2]انتھی [اس رقم سے مسجد بنائی جائے گی نہ میت کی تکفین کی جائے گی، کیونکہ یہاں ملکیت ثابت نہیں ہے، جب کہ ملکیت کا ثبوت اہم رکن ہے اور نہ اس کے ذریعہ میت کا قرض چکایا جائے گا، کیونکہ دوسرے کے قرض کو ادا کرنا اس کی جانب سے تملیک ثابت نہیں کرتے بالخصوص میت کے لیے] اور ’’فتح القدیر شرح الہدایۃ‘‘ میں ہے: ’’قولہ: لانعدام التملیک، وھو الرکن۔ فإن اللّٰه تعالی سماھا صدقۃ،
Flag Counter