Maktaba Wahhabi

109 - 702
اور دلائل دونوں فرقوں کے اپنی جگہ پر مذکور ہیں اور وہ روایات جو دربارئہ عدم جواز قراء ۃ کے مروی ہیں ، وہ مقابلہ ان روایات صحیحہ کا نہیں کرسکتی ہیں ۔ 18۔ نماز میں آمین بالجہر کا مسئلہ: [1] سوال : آمین بالجہر امام و ما موم و منفرد کے لیے صلوٰۃ جہریہ میں کہنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں ؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟ جواب : آمین بالجہرکہنا حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’عن أبي ھریرۃ قال: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم إذا فرغ من قراء ۃ القران رفع صوتہ وقال آمین‘‘ رواہ الدارقطني و حسنہ، والحاکم وصححہ، کذا في بلوغ المرام۔[2] [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قراء تِ قرآن سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز کو بلند کرتے اور آمین کہتے۔ اس کی روایت دارقطنی نے کی ہے اور اس کو حسن قرار دیا ہے۔ حاکم نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے۔ ’’بلوغ المرام‘‘ میں ایسا ہی ہے] ’’عن وائل بن حجر قال: سمعت النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین، وقال آمین، ومد بھا صوتہ‘‘[3] رواہ الترمذي [وائل بن حجر کے واسطے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} پڑھتے ہوئے سنا اور انھوں نے آمین کہا اور اپنی آواز کو کھینچا۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے] پس ان دونوں حدیثوں سے آمین بالجہر کہنا امام کا ثابت ہوا۔ لیکن منفرد، پس حکم منفرد اور امام کا ہر چیز میں واحد ہے، جیسا کہ احادیث صحیحہ مرفوع سے ثابت ہے۔ پس جب کہ ثابت ہوا واسطے امام کے، ثابت ہوا واسطے منفرد کے۔ باقی رہا حکم مقتدی کا، پس لکھتا ہوں میں کہ مقتدی کا بھی آمین پکار
Flag Counter