Maktaba Wahhabi

134 - 702
اگر کوئی شخص اس طور پر خطبہ پڑھے کہ اس میں عبارات عربی مثل آیات قرآنی اور احادیث اور ادعیہ ماثورہ کچھ نہیں ہوں تویہ صورت جائز نہیں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرے، بلکہ عبارات عربیہ کو بھی پڑھے اور اس کے بعد اس کا ترجمہ کردے، تاکہ عوام الناس کو اس سے فائدہ پہنچے، یہ صورت جواز کی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے: ’’کانت للنبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم خطبتان یجلس بینھما یقرأ القرآن و یذکر الناس‘‘[1] [نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیتے تھے، ان دونوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلوس فرماتے۔ قراء تِ قرآن کرتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے] جب تک ترجمہ نہیں کیا جائے گا تو عوام الناس کیوں کر سمجھیں گے؟ اور تذکیر کا اختصاص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مقام میں کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} کافی و شافی ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ أبو الطیب محمد المدعو بشمس الحق العظیم آبادي ۔عفی عنہ ۔ ابوالطیب محمد شمس الحق محمد اشرف عفی عنہ ابو عبد اللہ محمد ادریس 26۔ بعد نماز جمعہ یا عیدین خاص کر مصافحہ کرنا: [2] سوال : مصافحہ بالتخصیص بعد نما ز جمعہ یا عیدین کے غیر وقت ملاقات کے کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے اور محققین حنفیہ نے اس کو کیا لکھا ہے؟ جواب : مصافحہ وقت لقا کے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کرام سے ثابت ہے اور بالتخصیص بعد نماز جمعہ اور عیدین کے بدعت ہے۔ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور ائمہ دین سے بھی منقول نہیں ۔ جیسا کہ شیخ ابن الحاج نے مدخل میں لکھا ہے: ’’وموضع المصافحۃ في الشرع إنما ھوعند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلوات [وذلک کلہ من البدع]، فحیث وضعھا الشارع نضعھا
Flag Counter