Maktaba Wahhabi

132 - 702
24۔ ایک شہر میں کئی جگہ جمعہ: [1] سوال : ایک شہر میں چند جگہوں میں جمعہ کی جماعت جائز ہے یا نہیں ؟ قدیم جامع مسجد کے نزدیک دوسری جامع مسجد اور جمعہ کی جماعت قائم کرنی، جس سے جامع مسجد قدیم کی جماعت میں تفرق اور نقصان واقع ہو، جائز ہے یا نہیں ؟ جواب : نحمدہ ونصلي. ایک شہر میں بغیر عذر شرعی کے متعدد جگہ نماز جمعہ قائم کرلینے اور محض اپنی کسل اور ہوائے نفس و تغافل سے مسجد جامع میں نماز جمعہ کے واسطے مجتمع نہ ہونا خلاف سنت مطہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و خلاف عمل و طریقہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک و خلفائے راشدین کے عہد رشد میں یہی طریقہ تھا، بلکہ لوگ مامور تھے کہ مدینہ منورہ اور اطرافِ مدینہ منورہ کے سب مکلفین مسجد نبوی میں مجتمع ہوکر ادائے نماز جمعہ کریں ۔ جیسا کہ حافظ ابن المنذر نے کتاب الاشراف میں اور حافظ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں اور شیخ الاسلام ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں لکھا ہے۔[2] لیکن بایں ہمہ تعدد جمعہ سے ادائے فرض میں نقصان نہیں لازم آئے گا۔ یعنی ان لوگوں کی نماز جمعہ ادا ہو جائے گی، مگر ترکِ سنت مؤکدہ کے گناہ سے بری نہیں ہوں گے۔ اور تفصیل اس امر کی رسالہ جواز تعدد الجمعہ للحافظ ابن حجر میں ہے۔ اور صرف کسل و تغافل سے نہیں بلکہ خاص تفریق جماعت کی غرض سے ایک مسجد جامع کے قریب یا بعید دوسری مسجد جامع مقرر کر کے وہاں نماز جمعہ قائم کرنا بالکل ناجائز و مخالف کتاب اللہ تعالیٰ ہے،کیونکہ یہ تفریق جماعت فساد فی الدین ہے۔ وقال اللّٰه تعالی: { وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا} [الأعراف: ۵۶] [زمین میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کر دی گئی ہے، فساد مت پھیلاؤ] اور جہاں پر عذر شرعی موجود ہو اور فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو اور اذیت پہنچنے کا خوف ہو، جیسے زمانہ پر آشوب میں جماعت احناف کو جماعت اہل حدیث کے ساتھ مخاصمت و مخالفت ہورہی ہے تو ایسی
Flag Counter