Maktaba Wahhabi

219 - 702
’’ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین، رجلین، أو رجل وامرأتین، ولا یشترط وصف الذکورۃ، حتی ینعقد بحضور رجل وامرأتین، و فیہ خلاف الشافعي‘‘[1] انتھی [ اور مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں مگر دو عاقل، بالغ، مسلم، مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کے ساتھ۔ اس میں مرد ہونے کی شرط نہیں ہے، یہاں تک کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی حاضری سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا اور اس میں شافعی کا اختلاف ہے۔ختم شد] پس حاصل کلام یہ ہے کہ اگر اس عورت کا باپ بلا و جہ شرعی باعث فسق اپنے اس عورت کو نکاح سے روکتا ہے او ر مانع از نکاح ہے اور وہ عورت خواہش مند نکاح کر نے کی ہے اور دوسرا ولی بعید بھی اس کا نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بھی مانع از نکاح ہے، تو اس صور ت میں مطابق مذہب ائمہ کرام کے وہ عورت اپنے نکاح کا ولی بنا کر نکاح کرے، وہ نکاح صحیح ہوگا۔ اور بنا بر مذہب صحیح اور دلیل قوی کے دو عورت اور ایک مرد کی گواہی کافی ہوگی۔ مگر خروجاً عن الخلاف اگر دو مرد کو گواہ مقرر کرلے تو بہتر ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب، وإلیہ المرجع و المآب۔ وصلی اللّٰه تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین۔ وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین۔ حررہ العبد الضعیف الفقیر الحقیر، أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی، عفا اللّٰه عنہ وعن آبائہ وأشیاخہ، و ستر عیوبھم، ورحم علیھم ورضي عنھم۔ آمین 37۔ باپ کا بیٹی کو شوہر سے الگ رہنے پر مجبور کرنا: [2] سوال : اگر ہندہ کا باپ ہندہ کو اپنے شوہر سے باز رکھے تو وہ شرعاً مجرم ہے یا نہیں ؟ جواب : { اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِِ} [یوسف: ۴۰] [حکم توصرف اللہ کا ہے] ہندہ کے باپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ ہندہ کو اس کے شوہر کے پاس جانے سے روکے۔ کیونکہ
Flag Counter