Maktaba Wahhabi

224 - 702
الأوسط من حدیث أنس بسند ضعیف إلا أنہ قال: غفر لأبیھا‘‘[1]انتھی کلامہ [حافظ عراقی نے ’’تخریج أحادیث الإحیاء‘‘ میں کہا ہے کہ طبرانی نے اس کی روایت انس کی حدیث سے معجم اوسط میں ضعیف سند سے کی ہے۔ البتہ انھوں نے فرمایا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں : ’’اس کے باپ کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت کر دی۔‘‘] پس جب ہندہ کے باپ نے ہندہ کو اس کے شوہر کے پاس جانے سے روکا اور منع کیا اور ہندہ کا شوہر اس امر سے بیزار ہے تو ہندہ کا باپ مناّع للخیر ہوا اور ہندہ جو بسبب عدم اطاعت زوج اپنے کے مستحق غضب الٰہی کی ہوگی، اس کا باعث ہندہ کا باپ ہوا۔ پس اب ہندہ کا باپ یقینی عاصی و مرتکب کبیرہ کا ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ العبد العا جز أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادي عفی عنہ 38۔ لڑکی کا نکاح چچا نے کر دیا، لیکن لڑکی کا نانا راضی نہیں : [2] سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ ایک لڑکی ہے، جس کی عمر تخمیناً تیرہ برس کی ہوگی۔ اس کے باپ ماں انتقال کر گئے، اس کے دادا بھی نہیں ہیں ۔ اب اس لڑکی یتیمہ کا نکاح اس کی اجازت سے ا س کے چچا نے اپنے دوسرے بھائی کے لڑکے کے ساتھ کردیا اور اس کے دوسرے چچا اور گھر کے سب لوگ راضی تھے، صرف اس لڑکی کے نانا راضی نہیں ہیں ۔ پس یہ نکاح موافق شریعت محمدیہ کے درست ا ور جائز ہوا یا نہیں ؟ مدلل تحریر فرما دیں ۔ بیّنوا وتوجروا۔ جواب : { قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ}[البقرۃ : ۳۲] [اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے،پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے] بصورت صدق سوال اس ہندہ یتیمہ کا اس عمر میں فی الحقیقت بالغہ کا ہونا تصور کیا جا سکتا ہے اور اگر فی الحقیقت بالغہ نہیں ہے تو بھی شرعاً حکم بالغہ اس پر صادق آتا ہے اور اس کی اجازت سے اس کے چچا ولی اقرب نے جو شادی کردی، یہ شادی موافق شریعت محمدیہ ۔علی صاحبہا الصلوٰۃ و التحیۃ۔
Flag Counter