Maktaba Wahhabi

190 - 702
نے کہا ہے: جمہور کا مسلک یہ ہے کہ قاضی کا قضا کے سلسلے میں اجرت لینا جائز ہے، کیونکہ وہ اپنے مصالح کی انجام دہی سے مشغول ہوتا ہے۔ ہاں سلف کے ایک طبقے نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن حرام نہیں قرار دیا ہے اور ایک گروہ نے کہا ہے: قضا پر اجرت (رزق) لینا اگر وہ حلال صورت میں ہے تو بالاجماع جائز ہے اور جس نے اسے چھوڑا ہے تو اس کا چھوڑنا زُہد کی بنا پر ہے] وقال الآلوسي في تفسیرہ: ’’ویجوز صرف الزکاۃ لمن لا تحل لہ المسألۃ بعد کونہ فقیراً، ولا یخرجہ عن الفقر ملک نصب کثیرۃ غیر نامیۃ إذا کانت مستغرقۃ للحاجۃ، ولذا قالوا: یجوز للعالم و إن کانت لہ کتب تساوي نصباکثیرۃ إذا کان محتاجاً إلیھا للتدریس و نحوہ أخذ الزکاۃ، بخلاف العامي‘‘[1]انتھی [زکات دینا جائز ہے، اس کے لیے جس کے لیے بھیک مانگنا حلال نہیں تھا فقیر ہونے کے بعد۔ فقر سے اس کو نہیں نکال سکتی ملکیت غیرنامیہ یعنی ایسی ملکیت جو بڑھنے والی نہ ہو، جبکہ اس کو شدید حاجت ہو۔ اسی لیے انھوں نے کہا ہے کہ عالم کے لیے جائز ہے، اگرچہ اس کے پاس ڈھیروں کتابیں ہوں ، جب وہ تدریس کے لیے ان کتابوں کا محتاج ہو کہ وہ زکات لے، عامی کے برخلاف۔ ختم شد] حررہ العاجز أبو الطیب محمد شمس الحق ۔عفی عنہ۔ العظیم آبادی 34۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بحالت رکوع انگشتری صدقہ کرنا: [2] سوال : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بحا لت رکوع جو تصدق انگشتری کی روایت ابوذر کتب قوم میں مسطور ہے، اس کی بابت حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الکاف الشاف في تخریج أحادیث الکشاف‘‘ میں لکھاہے کہ ’’إسنادہ ساقط‘‘ [اس کی سند ساقط ہے] اگرچہ کتاب مذکور میں اس کی سند مذکور نہیں ہے، مگر ثعلبی نے اپنی تفسیر میں سورہ مائدہ میں آیہ
Flag Counter