Maktaba Wahhabi

16 - 702
[ ۱ ] فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ پندرہ صد ی کے طویل عرصے میں علما نے اس شعبے کی دینی اہمیت کے پیش نظر ہمیشہ ہی اس کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ تمام مسلمان اپنے اکثر دینی و دنیاوی امور سے متعلق پیش آمدہ مشکلات اور مسائل کے حل کی خاطر برابر ان کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں ۔ ان مسائل کا تعلق خواہ عقائد و عبادات سے ہو یا معاملات و اخلاق سے، یا باہمی اختلافات و نزاع سے، ہرحال میں وہ شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لیے مفتیوں سے مدد لیتے رہے ہیں اور انھوں نے افتا کو اپنا فریضہ منصبی تصور کرتے ہوئے ہمیشہ ہی ان کی رہنمائی کی ہے۔ افتا کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ قرآن مجید میں دو جگہ لوگوں کے فتویٰ پوچھنے کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے فتویٰ دینے کا ذکر آیا ہے۔[1]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دیگر ائمہ دین و علماے امت نے اس ذمے داری کو بہ خیر و خوبی نبھایا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس عرصے میں استفتا اور افتا کے طریقے بدلتے رہے ۔ عہدِ رسالت میں فتاویٰ کا سلسلہ اکثر و بیشتر زبانی طور پر ہی چلتا رہا۔ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجو ع کرتے۔ اس کا جواب کبھی تو قرآنی آیات کی صورت میں ملتا تھا اور کبھی وحی کی اساس پر اپنے اجتہادسے فتویٰ دیتے تھے۔قرآن مجید میں جن فتاویٰ کا ذکر آیا ہے ان کے سوالات کبھی تو {یَسْتَفْتُوْنَکَ}[2] کے صیغے سے شروع ہوتے ہیں اور کبھی {یَسْاَلُوْنَکَ}[3] سے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری سے لوگوں تک پہنچادیا۔ ان کے علاوہ وہ فتاویٰ جو آپ نے مختلف اوقات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوالات کے جواب کے طور پر دیے، حدیث کی مختلف کتابوں میں منتشر صورت میں موجود ہیں ۔علامہ ابن قیم (م ۷۵۱ ھ) نے اپنی کتاب میں ان کا ایک بڑا حصہ ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[4]
Flag Counter