Maktaba Wahhabi

166 - 702
کسی کا ایسے مہلکہ سے جان بچانا اور امداد کرنا خدا کے محسنین میں داخل ہوتا ہے، جو ہزارہا اموات کا باعث ہو تو شرعاً جائز نہیں ہے۔ جنگل میں آبادی سے باہر چلا جانا خلاف شرع نہیں ۔ خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بچانے کی تدبیر کرنے کو منع نہیں فرمایاہے۔ واللّٰه أعلم خادم قوم عبدالعزیز رضوی صمدانی عفی عنہ ۔ ہم کو چاروں جواب کے ساتھ اتفاق ہے، بے شک یہ ٹیکہ دوا ہے، اس کے ساتھ کوئی اعتقاد شرکیہ نہیں ہے۔ پس جس طرح ساری ادویات باذن اللہ تعالی تاثیر پیدا کرتے ہیں ، ویسا ہی یہ ٹیکہ بھی اور اس میں کسی قسم کا محذور شرعی نہیں ہے۔ پس ٹیکہ لینے والا بے شک و شبہ مسلمان ہے اور بے شک مدد و اعانت مصیبت زدہ کی کرنا موجب اجر کثیر ہے ۔جو اس کو خطا سمجھے، وہ خاطی ہے۔ اور حدیث صحیح: ’’الطاعون شہادۃ لکل مسلم‘‘[1] [طاعون کی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت کی موت ہے] کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے علاج وتدبیر ازالہ کی نہیں کی جائے، کیونکہ ہدم و غرق میں بھی درجہ شہادت کا ملتا ہے۔ پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں : ’’اللھم إنی أعوذ بک من الھدم والغرق وغیر ذلک‘‘[2] [اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں غرق اور عمارت گرنے کی موت سے] فر مایا ہے۔ اور جس شہر یا گائوں میں سمیت وبائیہ آگئی ہو، وہاں سے دوسرے شہر یا گائوں میں جانے کی ممانعت آئی ہے۔ اسی مصلحت سے کہ دوسری جگہ کے لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجائیں گے، باقی رہا اسی شہر یا گائوں میں رہ کر صرف حفظ کے واسطے آبادی کو چھوڑ کر میدان ہوا دار میں یا جنگل میں جانا یہ داخل فرار نہیں ہے، کیونکہ وہ شخص کسی آبادی میں نہیں گیا ہے، جہاں لوگ آباد ہیں ۔ پس اس پر اطلاق فرار کا نہیں ہوا۔ واللّٰه أعلم حررہ العبد الضعیف محمد شمس الحق عفی عنہ ا لعظیم آبادی۔ مہر: محمد شمس الحق أبو طیب۔۱۲۹۵ہ
Flag Counter