Maktaba Wahhabi

93 - 377
کر کے خاموشی اختیار کریں تو وہ روایت کم از کم حسن درجہ پر ہے اور قابل قبول ہے جیسا کہ توضیح الکلام (ج ۱ ص ۲۱۱،۲۱۲، حاشیہ توضیح: ج ۱ ص ۳۳۸) میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مگر جناب ڈیروی صاحب نے بزعم خویش ایک دو حوالے ذکر کرکے کہا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا سکوت فتح الباری میں اثری صاحب کے حق میں آجائے تو معتبر ورنہ غیر معتبر(ایک نظر: ص ۲۱۶،۲۱۷)حالانکہ موصوف نے ا س کے لیے جس حوالہ پر اعتماد کیا وہاں تنہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت پر اعتماد نہیں کیا گیا۔ چنانچہ’’ ا ما م بخا ر ی رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ‘‘ (ص ۶۹) میں نعیم رحمہ اللہ بن حماد کی ایک روایت پر ڈیروی صاحب کے اعتراض کے جواب میں عرض کیا گیا ہے کہ اس روایت کے بارے میں علامہ ھیثمی رحمہ اللہ نے ’’ رجالہ ثقات‘‘ کہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر سکوت کیا ہے، اس روایت کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ ڈیروی صاحب کا یہ اعتراض تب تو کوئی حیثیت رکھتا تھا جب راقم نے کلیۃً اسی پر اعتماد کیا ہوتا۔ مگر جب ایسا نہیں تو اسے تضاد قرار دینا محض تضاد فکری کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح توضیح الکلام (ج۱ ص ۲۱۶،۲۱۷) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت کا سبب مذکور ہے کہ خود انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کا صحیح شاہد امالی میں ذکر کیا ہے اور اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ ’’غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پر سکوت کیا ہے۔‘‘ (توضیح)۔ اس سے تو دراصل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ پر وارد شدہ اعتراض کا دفاع ہے کہ ایک طرف تقریب (ص ۱۳۱) میں وہ حنظلہ السدوسی کو ضعیف کہتے ہیں ، دوسری طرف اس کی اسی روایت پر فتح الباری میں سکوت کرتے ہیں مگر افسوس سیدھی بات کو بھی شیخ الحدیث صاحب سمجھ نہیں سکے۔ مزیدبرآں غور فرمائیے ! ہم نے فتح الباری ا ور، التلخیص میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت کا صحیح یا حسن ہونا حنفی اکابرین سے نقل کیا ہے ، بلکہ ’’انہاء السکن‘‘ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے اسے لکھ کر’’حنفی اصول‘‘ ہی بنا دیا اور اعلاء السنن میں جا بجا اس پر اعتماد کیا اور ان کے اسی اعتماد پر عرض کیا گیا کہ ’’اس روایت کے بارے میں بھی علماءِ احناف سے یہی
Flag Counter