Maktaba Wahhabi

73 - 377
پھر رافضی ہو یا کوئی اور بدعتی راوی ہو جب وہ صادق ہو تواس کے متعلق خود خطیب کا جو موقف ہے وہ ان کی مشہور کتاب الکفایہ (ص ۱۲۴،۱۲۵) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں بدعتی سے روایت لینے میں انھوں نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ’’ واحتجو باخبارھم فصار ذلک کالاجماع منھم ‘‘ محدثین نے ان کی روایات سے استدلال کیا ہے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ اس پر ان کا اجماع ہے۔ ان کی اس وضاحت کے بعد ڈیروی صاحب کا کہنا ’’رافضی خطیب کا قابل اعتماد کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘ بڑی سطحی اور محض جذباتی بات ہے جو خطیب رحمہ اللہ کے موقف کے سراسر خلاف ہے۔ رہا معاملہ محمد رحمہ اللہ بن مظفر کا ،تواس کی توثیق کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ثقۃ حجۃ معروف‘‘ (میزان : ج ۴ ص ۴۳)ا لبتہ انھوں نے علامہ الباجی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ابن مظفر رحمہ اللہ کا شیعہ ہونا ظاہر ہے۔ حالانکہ ابن مظفر رحمہ اللہ کے تلمیذ جرح و تعدیل کے امام ، امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ مامون ہیں اس میں معمولی سا تشیع پایا جاتا ہے جو ان شاء الله مضر نہیں۔ وہ ان کی اتنی تعظیم کرتے کہ ان کے سامنے ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ ذہبی رحمہ اللہ پر نقد کیا ہے کہ انھوں نے جو ابوالولید رحمہ اللہ باجی کے قول کی بنا پر ابن مظفر کو ظاہر طو ر پر شیعہ لکھا ہے یہ ان کے لیے مناسب نہ تھا۔ ان کے الفاظ ہیں: وما کان ینبغی للذھبی ان یذکرہ بھذا القدح البارد وما ادری لم یقلد الباجی فی قوم لم یحط الباجی باحوالھم علما کما ینبغی۔ (لسان : ج ۵ ص ۳۸۳) ’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ایسی فضول جرح کو نقل کرتے ۔ معلوم نہیں ایک جماعت کے بارے میں وہ باجی کی پیروی کیوں کرتے ہیں۔ جن کے بارے میں کماحقہ خود باجی نہیں جانتے۔ ‘‘لیجیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ علامہ الباجی ، ابن رحمہ اللہ مظفر کے احوال سے کماحقہ واقف ہی نہ تھے۔ اس لیے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی پیروی میں جو نقل کیا ہے یہ ابن مظفر کے ناقابل اعتبار ہونے کی قطعاً دلیل نہیں۔ خطیب بغدادی (جنھوں نے ان کے واسطہ سے یہ قول نقل کیا ہے) فرماتے ہیں: کان فھما حافظا
Flag Counter