Maktaba Wahhabi

65 - 377
میں لے رہے ہیں؟ سلیمان تیمی رحمہ اللہ کے ساتھ عمر بن عامر کا نام بلاشبہ انھوں نے لیا مگر عمر بن عامر کی روایت کا دارومدار سالم رحمہ اللہ بن نوح پر ہے اور وہ عمر رحمہ اللہ بن عامر اور سعید رحمہ اللہ بن ابی عروبہ دونوں سے قتادہ رحمہ اللہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں جیسا کہ سنن دارقطنی رحمہ اللہ (ج۱ ص ۳۳۰) میں ہے۔ اور سالم بن نوح متکلم فیہ ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ہی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب کہ سعید بن ابی عروبہ سے امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ ،یزید بن زریع رحمہ اللہ ، اسماعیل رحمہ اللہ بن علیہ ،عبدہ بن سلیمان رحمہ اللہ ، ابواسامہ رحمہ اللہ ، حماد بن اسامہ رحمہ اللہ ، روح بن عبادہ رحمہ اللہ ، مروان رحمہ اللہ بن معاویہ، عباد بن العوام رحمہ اللہ ، شعیب بن اسحاق، عبدالله بن شوذب رحمہ اللہ اور عثمان رحمہ اللہ بن مطر اس زیادت کو ذکر نہیں کرتے ۔ (کتاب القراء ۃ :ص ۸۹) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی بنا پر سعید کی روایت میں اس زیادت کی نفی کی ہے۔ البتہ عمر رحمہ اللہ بن عامر کی روایت کا سلیمان رحمہ اللہ کی روایت کے ساتھ اشارہ کر دیا کہ عمر رحمہ اللہ بن عامر سے اس کے برعکس منقول نہیں۔ اب حدیث کا ذوق رکھنے والے اس سے جہاں امام بخاری رحمہ اللہ کی ذہانت و امانت کا اعتراف کریں گے وہاں یہ بھی سمجھیں گے کہ جس طرح سالم بن نوح کی روایت میں سعید کا نام لینا سالم بن نوح کا وہم ہے اسی طرح عمر رحمہ اللہ بن عامر کا نام لینا بھی وہم پر مبنی ہے۔ اسی بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جماعت کی روایت کو ترجیح دی اور فرمایا’’ ولو صح‘‘ اگر یہ صحیح ہے تو اس کا جواب یہ ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں ووھن ابوعبداللّٰه محمد بن اسماعیل کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس زیادت کو کمزور کہا ہے(کتاب القراء ۃ: ص ۸۹) جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت پر سلیمان کا قتادہ رحمہ اللہ اور قتادہ کا یونس سے محض عدم سماع کی بنا پر ہی اعتراض نہیں کیا جیسا کہ جناب ڈیروی صاحب باور کرا رہے ہیں۔ بلکہ ثقات کی مخالفت کا ذکر بھی کرتے ہیں اور سلیمان رحمہ اللہ کے تفرد کا ذکر امام ابو داؤد وغیرہ نے کیا ہے۔ اس لیے جن حضرات نے اسے معلول قرار دیا ان کا دراصل ذکر مقصود ہے جس کو ڈیروی صاحب ناسمجھی میں بتنگڑ بنا رہے ہیں۔
Flag Counter