Maktaba Wahhabi

56 - 377
لیجیے جناب! محمد رحمہ اللہ بن حمیر یہ روایت بیان کرنے میں منفرد ہیں مگر خود علامہ ذہبی رحمہ اللہ ، محمد بن حمیر کی احادیث حسن اور اس حدیث کا دفاع کرتے ہیں۔ ابن حبان رحمہ اللہ ، ضیا المقدسی رحمہ اللہ ، ابوالحسن رحمہ اللہ ، منذری رحمہ اللہ ، ابن حجر رحمہ اللہ اور سیوطی رحمہ اللہ اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔ مولاناظفر احمد عثمانی نے بھی اعلاء السنن (ج ۳ ص ۱۶۳) میں صححہ ابن حبان کہہ کر اس کی تصحیح کی ہے۔لہٰذا تفر د کا بہانہ بناکر بھی محمد رحمہ اللہ بن حمیر کی روایت کو ضعیف قرار دینا صحیح نہیں۔ جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اثری صاحب کہتے ہیں کہ شعیب عن عبدالله بن حارث عن محمود کا طریق صحیح ہے سب راوی ثقہ اور صدوق ہیں (توضیح) سند میں اتنی خرابیوں کے باوجود یہ صحیح بھی ہے ، سب راوی صدو ق اور ثقہ بھی ہیں۔ نہ معمری رحمہ اللہ کو یہاں وہم آیا،نہ محمد رحمہ اللہ بن حمیر کا تفرد نظر آیا ، نہ عبدالله رحمہ اللہ بن حارث کا مجہول ہونا نظر آیا ۔ یہ ہے ان کی ایمانداری اور تضاد بیانی ۔ (ایک نظر : ص ۱۹۰)سند میں کیا کیا خرابی ہے ؟ قارئین کرام آپ معمری رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ بن حمیر پر ہونے والے اعتراض کی حقیقت معلوم کر چکے ، جہاں تلک عبدالله بن عمرو رحمہ اللہ بن حارث کی جہالت کا تعلق ہے تو اس کو مجہول قرار دینا بھی شاگرد رشید کی طرف سے استاد مکرم کا محض حق شاگردی ادا کرنے کا نتیجہ ہے۔جس کا جواب بحمدالله توضیح الکلام (ج ۱ ص ۳۴۷) میں ہم دے چکے ہیں جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس لیے ’’عبدالله رحمہ اللہ بن عمرو بن حارث کا مجہول ہونا نظر نہ آنے‘‘والی بات بھی سراسر دھوکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ توضیح (ج۱ ص ۳۴۹) کی جو عبارت انھوں نے نقل کی ہے اس کے الفاظ نقل کرنے میں بھی ڈیروی صاحب نے بددیانتی کا مظاہرہ فرمایا۔ مکمل الفاظ دیکھیے: ’’اس کے سب راوی ثقہ اور صدوق ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ، صرف عبدالله بن عمرو بن حارث ہے مگر حنفی اصول کی روشنی میں وہ بھی ثقہ ہے(کما مر) اور اگر مستور تسلیم کیا جائے تو متابعت میں اس کی روایت قبول ہے، جیسا کہ حضرت الاستاذ نے باحوالہ ذکر کیا ہے۔‘‘ (توضیح الکلام : ج ۱ ص ۳۴۹) قارئین کرام ! غور فرمائیں، عبد رحمہ اللہ الله بن عمرو کے حوالے سے حنفی اصول کا جو ذکر کیا اور مستور تسلیم کرکے متابعت میں اس کی روایت کومقبول کہا۔ اس کے بعد بھی عبد رحمہ اللہ الله بن عمرو
Flag Counter