Maktaba Wahhabi

44 - 377
(تقریب : ص ۱۰۴) اور ابوالعالیہ مشہور ثقہ تابعی ہیں۔ (تقریب: ص ۵۹۶) لیجیے جناب! جزء القراء ۃ کی سند کے سب راوی ثقہ و صدوق ہوئے۔ ڈیروی صاحب نے اپنے حلقہ ارادت کے ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایک ادھورے اصول کے تحت جو اسے ضعیف قرار دینے کی کوشس کی سراسر دھوکا بازی پر مبنی ہے۔ اگرا ن کا بیان کردہ اصول ہی قال لی یا قال لنا کا سبب ہے تو بتلایا جائے اس کی سند کا کون سا راوی ضعیف اور کمزور ہے ؟ اور سند میں کیا خرابی ہے ؟ الله تعالیٰ کے فضل سے وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ﴿وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا﴾۔ امام فضل رحمہ اللہ بن دکین اور ابوالعالیہ رحمہ اللہ صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔ رہے الحسن بن ابی الحسناء تو انھیں امام یحییٰ بن معین ،العجلی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ کہا اور ابوحاتم رحمہ اللہ نے محلہ الصدق کہا۔ صرف امام الازدی نے منکر الحدیث کہا۔ جن کی تردید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کر دی ۔ پھر تنہا امام ازدی رحمہ اللہ کی جرح ہی قابل قبول نہیں جس کی ضروری تفصیل مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے الرفع والتکمیل (ص ۱۷۵) میں بیان کر دی ہے۔ نیز اس روایت میں حسن منفرد نہیں، ایوب اس کا متابع موجود ہے(بیہقی رحمہ اللہ ) اس لیے سند کے اعتبار سے یہ اثر بے غبار اورصحیح ہے۔ رہی امام بیہقی رحمہ اللہ کی سند تو اولاً جزء القراء ۃ کی سند کے بعد اس کی تفتیش کی چنداں ضرورت نہیں۔ تاہم عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے استاد ابوبکر بن الحارث جنھیں علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے الامام المقری الزاہد المحدث قرار دیا۔ اس سے جناب ڈیروی صاحب کی تسلی نہیں ہوئی تو عرض ہے کہ ابوالحسن علی بن یوسف نے انباء الرواۃ (ج ۱ ص ۱۳۰) میں انھیں المقرئ ،النحوی ،المحدث، الزاہد الورع ،الثقۃ ،الامام ، فرید عصرہ‘ کے بلند القاب سے یاد کیا اور الثقۃ کہا۔ لیجیے! ’’ الثقہ‘‘ کا لفظ بھی دیکھ لیجیے۔ لہٰذا اس کا انکار بے خبری پر مبنی ہے یا محض ضد کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ محمد بن عبدالله بن رستہ کا ترجمہ بھی ذکر کرنا چاہیے تھا ۔ جنا ب من! ان کا ترجمہ السیر (ج ۱۴ ص ۳۱۱) ،طبقات المحدثین (ج ۳ ص ۴۶۳) ، اخبار اصبہان (ج ۲ ص ۲۲۵) میں ملاحظہ کر لیجیے۔ ان شاء الله تسلی ہو جائے گی۔
Flag Counter