Maktaba Wahhabi

375 - 377
قرآن تیرا امام ہے۔ اس قرآن سے پڑھو، تھوڑا اور زیادہ طحاوی (۱؍۱۵۱) ابن ابی شیبہ (ج ۱ ص ۳۱۷) میں ہے: ھو امامک فان شئت فاقل منہ او ان شئت فاکثرتو وہ قرآن تیرا امام ہے۔ پس تو اگر چاہے تواس سے تھوڑا پڑھ اور اگر تو چاہے تو زیادہ پڑھ۔ ھوکی ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ اب قرآن مجید اپنی قراء ت خود تو نہیں کرتا ۔ تو کتاب القراء ۃ میں یوں تحریف کی گئی : قرأ فیھا امامک جس میں تیرا امام قراء ت کرے۔ یعنی نماز پڑھانے والا امام بنا کر قراء ت خلف الامام ثابت کی جا رہی ہے۔ اب اس تحریف کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ میرے خیال میں اصل ذمہ دار تو مصنف ہوتا ہے۔الخ (ایک نظر: ص ۱۳۵،۱۳۶) قارئین کرام !ڈیروی صاحب کی ہرزہ سرائی اور الزام تراشی پر غور کیجیے ، کتاب القراء ۃ ہر دورمیں متداول رہی اور اہل علم اس سے استفادہ کرتے رہے۔ مگر کسی نے بھی امام بیہقی رحمہ اللہ کو محرف قرار نہیں دیا۔ نہ کسی نے اسے تحریف قرار دیا۔ علامہ علی متقی نے بھی کنز العمال (ج ۸ ص ۲۹۱، رقم :۲۲۹۶۷) میں امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہی اثر نقل کیا ہے۔ ڈیروی صاحب امام بیہقی رحمہ اللہ کی عداوت میں اس قدر بے بصیرت واقع ہوئے ہیں کہ انھوں نے اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔قرأ فیہا امامک کہ وہ اپنی عصبیت میں معروف ’’ قرأ‘‘ پڑھتے ہیں مگراس پر غور نہیں کرتے کہ یوں فاقرأ منہ میں منہ کی ضمیر کس طرف ہے ؟ دراصل یہاں قَرَأ نہیں بلکہ قُرِئ مجہول ہے اور کتابت میں غلطی سے قرأ لکھ دیا گیا ہے اور معنی یوں ہے: جس نماز میں قرآن پڑھا جائے اس (قرآن) سے پڑھ تھوڑا ہو یا زیادہ ۔ڈیروی صاحب نے جو کہا کہ ’’تو بھی اس کو پڑھ‘‘ یہ ’’اس کو ‘‘ کامشار الیہ کیا ہے ؟ قراء ت ہے جیسا کہ انھوں نے سمجھا ہے تو قرأ منھا چاہیے تھا نہ کہ ’’ قرأ منہ ‘‘ مگر افسوس کہ اس سیدھی اور واضح بات کو وہ اپنی کج روی اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی عداوت میں سمجھ ہی نہیں سکے اور الزام لگا دیا امام بیہقی رحمہ اللہ پر۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون۔! کم من عائب قولاً صحیحاً وآفتہ من الفھم السقیم پھر مزیدبرآں یہ بھی دیکھیے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اثر کو بھی دوسرے صریح آثار کی
Flag Counter