Maktaba Wahhabi

353 - 377
بن الفضل بن محمد بن اسحاق بن خزیمۃ انا جدی نا محمد بن ابی صفوان الثقفی نا ابوبکر یعنی الحنفی نا عبدالحمید بن جعفر عن عمرو بن شعیب۔۔الخ (کتاب القراء ۃ : ص ۸۶) امام ابوعثمان امام بیہقی رحمہ اللہ کے مشہور استاد امام اسماعیل رحمہ اللہ بن عبدالرحمن الصابونی ہیں اور وہ بالاتفاق ثقہ ہیں اور محمد رحمہ اللہ بن الفضل بن محمد ابوطاہر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے پوتے ہیں ، وہ بھی مشہور محدث ہیں۔ علامہ الذہبی رحمہ اللہ نے الشیخ الجلیل المحدث، محدث نیساپور کے القاب سے یاد کیا ہے ، البتہ ان پر یہ اعتراض ہے کہ آخر میں بیماری کے سبب وہ مختلط ہو گئے اور عقل زائل ہو گئی تھی۔ مگر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ ان سے مشائخ کا سماع اختلاط سے پہلے کا ہے اور اس حالت میں انھوں نے اس سے سماع نہیں کیا۔ کیونکہ جس کی عقل زائل ہو گئی ،پھر اس سے سماع ممکن نہیں۔ (السیر: ۱۶؍۴۹۰، تاریخ اسلام ۲۷؍۱۵۷، العبر:۳؍۳۱۷ وغیرہ) ان کے دادا امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عظمت شان سے کون ناواقف ہے؟ محمد رحمہ اللہ بن ابی صفوان الثقفی یہ محمد بن عثمان بن ابی صفوان ہیں جو ثقہ ہیں(تقریب: ص ۴۶۱) اور ابوبکر الحنفی عبدالکبیر رحمہ اللہ بن عبدالمجید رحمہ اللہ ہیں اور وہ ثقہ ہیں(تقریب: ص ۳۳۰) عبدالحمید رحمہ اللہ بن جعفر کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : صدوق رمی بالقدر وربما وھم کہ صدوق ہے ، قدری ہے اور بعض اوقات اس سے وہم ہو جاتا ہے (تقریب: ص ۳۰۰) اور ایسے راوی کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: احتج بہ الجماعۃ وھو حسن الحدیث (السیر: ۷؍۲۲) کہ ایک جماعت نے اسی سے حجت پکڑی ہے اور وہ حسن الحدیث ہے۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں وثقہ الاکثرکہ اکثر نے اسے ثقہ کہا ہے۔(نصب الرایہ : ج ۱ ص ۳۴۴) اس وضاحت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ راقم نے جو اس سند کو حسن کہا اور مولانا صفدر نے عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے علاوہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تواس کی دونوں اسناد کی بناپر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ڈیروی صاحب کا اعتراض سراسر دھوکا ہے۔
Flag Counter